ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں علیشا تمہاری وجہ سے میرے باپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھا ،
تم نے سب کے سامنے مجھے تھپڑ مارا بات گھمنڈ ہے نہ اپنے پردے پر سب کے سامنے بے پردہ نہیں کیا تو میرا نام عادل فضل نہیں ،
عادل ساری رات نہیں سویا تھا اپنے باپ سے پڑنے والے تھپڑ اس کا گال جھلس رہا تھے ان دیکھی آگ عادل کے دماغ میں بھڑک چکی تھی،
عادل فریش ہونے کے لے اپنا کپڑے لے واشروم بند ہو گیا تھا کوئی اس کو بولنے نہیں آیا تھا جس سے عادل کا دماغ خراب ہونے پر تھا،
کہاں ہے وہ گدھا سارے کام پڑے ہیں صبح سے یہ نہیں آٹھ کر اپنے باپ کے کام کم کرئے لاپروائی کی بھی حد ہے بہن کی شادی سر پر کھڑی ہے وہ ابھی تک سو رہا ہے کیا فاضل صاحب ملازم کو سارا کام سمجھا کر خود ممتاز بیگم کو دیکھتے پوچھا،
میں نہیں گی اس کو آٹھنے میں ملازمہ کو بھجتی ہوں ممتاز بیگم کے کہنے تک نظریں سیڑھیوں پر گی جہاں عادل آتا دیکھی دیا،
آگئے جناب ،،،
فضل صاحب کے پوچھنے پر عادل ہلکا سا مسکرا دیا لیکن علیشا کے لے نفرت مزید بڑھ رہی تھی ،
زیادہ مسکرانے کی ضرورت نہیں ارم کی آج بارات ہے مجھے کوئی کمی نہیں چاہئے بعد میں تمہارا بھی فضلہ کرتا ہوں فاضل صاحب کہتے باہر نکل گئے،
ڈیڈ کیا کرنے کا سوچ رہیں ہیں موم عادل ابھی ایک شوکڈ سے نکلا تھا جس پر دوسرا صبح ہی فضل صاحب دئیے کر نکل گئے،
جو بھی سوچیں گئے اچھا ہی ہو گا تم جا کر اپنی بہن کو بیوٹین چھوڑ کر آو مجھے بہت کام ہیں ممتاز بیگم کہتی وجہیہ کو کال ملاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گی،
اففف میں پاگل ہو جاوں گا یہ سب مجھے کیا سمجھ رہیں ہیں عادل غصے سے بڑبڑایا،
بھائی جو ہو گا اچھا ہو گا آپ پریشان کیوں ہو رہیں میں ملازمہ کے ساتھ اپنا سامان لاتی ہوں ارم کہتی اپنے کمرے گی ،
عادل غصے سے تن فن کرتا باہر باہر نکلا ایک لڑکی کی وجہ سے اس کو کیا کیا سنا پڑ رہا تھا ،
ارم کے آتے عادل اس کو بیوٹیشن کے پاس چھوڑ آیا خود بارات کے کام سے نکل گیا تھا ،
شام کے قریب سب ہال میں جمع ہونے لگے وہی عادل کی نظریں بار بار نظریں وہی دروازے کے پاس گھوم رہی تھیں ،
عادل کو علیشا کا انتظار تھا جو اس کو اتنا سنا کر خود کہی نہیں تھی وقت گزارتے ساتھ ہی ارم کا نکاح اس کی خالہ کے بیٹے سیف سے ہوا تھوڑی دیر میں ارم کو بھی رخصت ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لے اپنے گھر کے لے جانا نکلے گئے،
عادل کو جس کا انتظار تھا وہ دیکھی نہیں اور یہ بات عادل کے دماغ اور خراب کر گی تھی،
شاخوں سے جب روٹھے پتے
ٹوٹ کے بکھرے سوکھے پتے
پھل اور پھول کو رنگت دے کر
پیلے پڑ گئے بھوکے پتے
کڑواہٹ کا بھید نہ پائے
جو بھی چکھ کر تھوکے پتے
سانس میں اپنی جی اٹھتے ہیں
جب بھی دیکھوں چھو کے پتے
ہواؤں میں اڑتے کرب سنائیں
شاخ سےبچھڑے روکھے پتے
زرد اور خستہ کب جیتے ہیں؟
ہوں جس بھی رنگ و بو کے پتے
دو دن ہو گئے تھے علیشا کو اب ہر چیز سے دل آٹھ گیا تھا علیشا ہر وقت یا تو اللہ سے باتیں کرتی قرآن کی تلاوت کرتی ،کبھی نماز تو کبھی دل بھلانے کے لے اپنی پسند کر کام شاعری کی کتاب پڑھ لیتی پر دل تھا جو مرجھا سا گیا تھا،
علیشا ابھی بھی شاعری کی کتاب پڑھ رہی تھی جب اپنے گھر میں آواز سن کر دھیان ان کی طرف گیا،
علیشا ملازمہ کو بولا کر پوچھتی لیکن پھر کام کا سوچ کر خود کھڑی ہوتی سہی سے حجاب کرتی نقاب بند کر کمرے سے باہر آتے اور سے جھنک کر دیکھا ،
نیچے لاونچ میں فضل صاحب ممتاز بیگم بیٹھے مسکراتے باتیں کر رہے تھے علیشا کا دل ایک دم روک گیا تھا،
ایک خوف تھا اس شخص کا جس نے بھری محفل میں بے پردہ کیا تھا،
علیشا بیٹی اوپر اکیلی کیا کر رہی یو نیچے آو فضل صاحب جو ہنستے بات کر رہے تھے اچانک علیشا کو اوپر کھڑا دیکھے کر پکارا،
علیشا گھبراتی ہوئی ان کو دیکھا،
بیٹا عادل نہیں ہیں آپ اتمنا سے نیچے آ جائیں ممتاز بیگم علیشا کا ڈر آنکھوں سے دیکھے کہا،
علیشا سکون کا سا خارج کرتی نیچے آتے ان سے ملی اپنے امی ابو کے ساتھ بیٹھتی نقاب اتار دیا تھا،
سجاد وجہیہ مجھے تم سے بہت قمیتی تمہاری بیٹی چاہئے اگر تم دونوں کو کوئی اعتراز نہ ہو تو فضل صاحب نے دونوں کو دیکھتے کہا،
عیلشا تو سن سی اپنے ماموں کو دیکھتی رہتی جب اپنے ہواس میں آتی وہاں سے کھڑی ہوتی کمرے کی طرف بڑھ گی،
بھائی آپ علیشا کو جانتے ہیں عادل بہت مختلف ہے اور ابھی جو عادل نے علئشا کے ساتھ حرکت کی اس سے علیشا بہت مرجھا سی گی ہے علیشا کو جاتے دیکھے کر وجہیہ بیگم بولی کیونکہ وہ علیشا کو مرجھا ہوا کبھی نہیں دیکھے سکتی تھیں،
ہاں تمہاری بات سہی ہے وجہیہ پر ہم پہلے سے علیشا کے خوائش مند تھے لیکن عادل کی فضول حرکت پر معذرت بھی کرتے ہیں ممتاز بیگم اپنے شوہر کا شرمندہ ہونا دیکھا تھا،
بھابھی فضل یہ حق میں نے اپنی بیٹی کو دیا ہے انشااللہ جلفی کوئی اچھی خبر دئیں گئے ابھی کھانا کھانے چلیں سجاد صاحب نے ساری بات سنمبھالی تو ممتاز بیگم فضل صاحب مسکرا دئیے،
آ گئے تم گھر پر فضل صاحب جو دو گھنٹے پہلے گھر آئے تھے عادل کو گھر نہ دیکھے کر انتظار میں لگے تھے،
جی ڈیڈ،،
عادل ادب سے سر جھکے بولا اپنے باپ سے لڑنا یا بدتمیز کرنا وہ چاہتا ہی نہیں تھا،
ممتاز بیگم دونوں باپ بیٹے کو دیکھے رہی تھیں جبھی عادل ان کے پاس آ کر بیٹھتے چائے کا کپ لیا،
اچھا کیا جلدی تشریف لے گھر مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے فضل صاحب تھوڑے سخت ہوتے بعد میں نرم پڑے،
جی کریں ڈیڈ سُن رہا ہوں عادل اپنے باپ کو دیکھتے بولا،
ہم تمہارا راشتہ طے کر چکے ہیں علیشا کے ساتھ اس لے تم اپنے دماغ سے تیار ہو جاو تاکہ کل کو ہم سے کچھ مت بولنا فضل صاحب چائے پیتے کہا،
عادل جو ابھی مشکل سے چائے کا کپ منہ کو لگانے جا رہا تھا ساری جھلک کر ہونٹوں سے ہوتا کپڑوں پر گری جس پر عادل تڑپ کر کھڑا ہوا،
واٹ،،
آپ کو وہ حجابن ملی تھی میرے لئے ڈیڈ میں نہیں کرو گا اس سے شادی عادل کو چائے کی گرم جلن ابھی نہیں گی اوپر سے علیشا کا سن کر دماغ گھوم گیا تھا،
منہ سنمبھال کر بات کرنا عادل نہیں تو جوتے کھاو گئے مجھ سے اور شادی تمہاری علیشا سے ہو گی دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتے فضل سب غصے سے بولے،
جو کرنا ہے کر لیں پر مجھے اس حجابن سے شادی نہیں کرنی عادل بھی اب غصے سے بولا،
کیوں کیا برائی ہے علیشا میں اُس جیسی پاک کردار کی لڑکیوں کو ہر کوئی اپنی بیوی بنانے کو تیار ہو جائے ممتاز بیگم کو اپنے بیٹے کی بدتمیزی ان کر برا لگا تھا،
تو جن کو وہ پاک کردار لگتی ہے کرئے شادی مجھے نہیں کرنی عادل اکڑ کر بولا،
یہ تمہارا آخری فضلہ ہے فضل صاحب تنے ماتھے پر بل ڈالے روعب سے پوچھا،
ہاں اگر آپ نے میرے ساتھ زبرداستی کی تو ہمشیہ کے لے یہاں سے چلا جاوں گا عادل نے ایموشنل کرنا چاہا،
تو ٹھیک ہے میں فضل سروار آج ابھی تمہیں اپنی ساری جادائیت سے آق کرتا ہوں نکلو ابھی میرے گھر سے فضل صاحب دھاڑے،
فضل،،
ممتاز بیگم کو برا لگا تو بولی لیکن اپنے شوہر کی غصے سے بھری آنکھیں دیکھے کر خاموش ہو گی،
عادل کو تو سہی صدمہ لگا تھا ایک لڑکی کے لے تھپڑ کیا اب تو اس کا باپ گھر سے باہر نکلنے کو تھا،
آپ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہے عادل نے منہ بنائے غصے سے کہا،
میں کہتا نکلو یہاں سے جب تم نے میری بات نہیں مانی تو فضول کے ڈرامے مت کرو فضل صاحب تیش میں آئے،
آپ اچھا نہیں کر رہے دیکھے لی جائے گا وہ کبھی خوش نہیں رہے گی کر لیں اپنی مرضی عادل غصے کہتا اپنے کمرے چلا گیا جس پر فضل صاحب مسکرائے جانتے تھے ان کی اولاد سیدھی ہے نہیں تو سیدھا کیسے مانے گی اس لے ساری بات ہی گھوما دی تھی،
علیشا تو خاموشی سے سب دیکهے رہی آسمان کو جو بہت گہرا کال تها،
علیشا کو عادل کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کا سوچ کر جان منہ کو آرہی تھی جو پہلے اس کے پردے کا مزاق بنا سکتا تھا پھر تو وہ شری اس کی بیوی ہو جائے تو کیا کرئے گا سوچ کر جسم ٹھنڈا پڑ رہا تھا،
علیشا،،
وجہیہ بیگم کھانا اس کے کمرے لاتے پکارا جو باہر ایسی کھوئی تھی اپنے کمرے میں آنے والے پر دھیان کب تھا،
جی امی،،
علیشا ہڑبڑا کر اپنی ماں کو دیکھا جو مسکرا کر اس کے پاس بیٹھتی کھانے کی ٹرے سامنے کی،
آج کھانا کھانے بھی نہیں آئی میری بیٹی کیا ناراض ہو اپنی ماں سے وجہیہ بیگم نے چاول پلیٹ میں ڈالتے قورمہ نکل کر مکس کرتے علیشا منہ کهولتے کهانے کا چمچ لے اپنی ماں کو دیکها جو اس کو ہی دیکهے رہے تهے،
نہیں امی میں کیوں آپ سے ناراض ہوں گی بس دل نہیں کیا علیشا وجہیہ بیگم کے ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے کہا،
میری بیٹی اگر عادل سے راشتے کی وجہ سے پرشان ہے تو بے فکر ہو جاو ہم نے یہ فضلہ تم پر چھوڑ دیا ہے میری جان پہلے میں بھی چاہتی تھی تمہاری جلدی شادی ہو لیکن عادل کو لے کر تمہاری آنکھوں کا ڈر دیکھے کر اب میں ہی چاہتی ہوں تم خود فضلہ کرو کیونکہ میں سمجھ گی ہوں میری بیٹی پردے میں شہزادی ہے وجہیہ بیگم مسکراتے کہا،
امی ،،
یہ مجھے آپ دونوں کے فضلہ پر خوش ہوں بس ایک ڈر تھا جو اب نہیں کیونکہ میرے امی ابو ساتھ ہیں علیشا روتے بولی،
میرا بچی ،،
تمہارے ابو نے پھر بھی یہ فضلہ تمہارے پر چھوڑ دیا ہے اور میری بھی خوائش ہے میری بیٹی جس کی زندگی میں جائے وہ اس کی عزت کرنا جانتا ہو اب میں چلتی ہوں تم آرام کرو وجہیہ بیگم علیشا کے سر پر بوسہ دیتی ٹرے لے باہر چلی گی،
علیشا اپنی امی کا بدل روایہ دیکھے کر دل سے خوش تھی چلو دیر سے سہی پر اس کی ماں نے اس کے پردے کو اہمیت دئیے دی تھی اب تو وہ ہر چیز سے خوش ہو گی تھی دل میں ایک ٹھنڈ بارش ہوتی محسوس ہوئی ،
جاری
0 Comentarios