ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
علیشا گھر آتے سارے راستے خاموش رہی تھی پیچھے بیٹھی خود سے جنگ لڑ رہی تھی ،
ممتاز بیگم نے بہت روکنا چاہئا پر علیشا کیسی کی نہیں سن رہی تھی وہ بھاگ جانا چاہتی ایسی جگہ جاں اور کوئی نہ ہو اس کو دیکھنے والا،
گھر آتے علیشا پھر ایک منٹ پیچھے نہیں روکی بھاگتی ہوئی اپنے کمرے داخل ہو گی تھی ،
علیشا،،،
سجاد صاحب اوپر کی طرف قدم بڑھے سیڑھیوں پر پاوں رکھا جب ہی وجہیہ بیگم نے روک دیا،
سجاد علیشا کو ابھی سکون چاہئے اکیلا چھوڑ دیں صبح تک سب بھول جائے گی وجہیہ بیگم کی بات پر سجاد صاحب ان کو دیکھتے رہے گئے،
بجائے اپنی بیٹی کی ذہینی کیفیت سمجھنے کے اس کو خود سے سکون دئیے جا کر آپ مجھے اس کو اکیلا رہنے کا کہے رہی ہیں سجاد صاحب آج غصہ ہوئے بول پڑئے،
میرا وہ مطلب نہیں سجاد وجہیہ بیگم نے بولنا چاہا جب سجاد صاحب ہاتھ کھڑا کرتے خاموش کرواتے اوپر چلے گئے،
وجہیہ بیگم دکھ سے کچن گی وہ جانتی تھی علیشا کو ذہنی سکون دینے کے لے سونے کی سخت ضرورت ہو گی اد لے ملازمہ کو منا کرتی خود علیشا کے لے دودھ گرم کرنے لگی دوسری طرف چائے کا پانی،
علیشا،،
سجاد صاحب کمرے میں داخل ہوئے لیکن ان کی بیٹی سامنے کہی نہیں موجود تھی،
سجاد صاحب دروازے کھولتے اندر آئے تو علیشا کے واڈروپ کے ساتھ بنے واشروم سے پانی گرنے کی آواز چلتے جا کر بیڈ پر بیٹھے تھے،
علیشا کو کافی دیر ہو چکی تھی ابھی تک باہر نہیں آئی وہی سجاف صاحب پریشان ہو چکے تھے وہ خود جانا نہیں چاہتے تھے،
تبھی وجہیہ بیگم ٹرے لے اندر داخل ہوتی نظریں سجاد صاحب پر گی جو پریشانی سے اپنا سر مسل رہے تھے ،
آپ پریشان کیوں ہیں سجاد علیشا کہاں ہے وجہیہ بیگم کا دل پل میں بھاری ہونا شرور ہوا جیسے بہت کچھ غلط ہونے والا ہو،
میں جب سے آیا ہوں علیشا باہر نہیں آئی دیکھو اس کو کچھ کرنا لے اپنے ساتھ سجاد صاحب واشروم کی طرف اشارہ کرتے بولے،
جی میں دیکھتی ہوں وجہیہ گھبرا کر ٹرے بیڈ پر رکھتی سجاد صاحب ادهر ادهر چکر کاٹنے لگے تهے،
علیشا،،،،،،،،
وجہیہ بیگم واشروم کا دروازہ کھولتے چیخ پڑی تھی سامنے کا منظر دیکھے کر ،
علیشا کیا ہوا میری بچی کو سجاد صاحب چیخ سن جلدی سے آگے بڑھے تو خود بھی گھبرا کر لڑکھڑا کر گرتے لیکن سنمبھال کر دروازہ تھام گئے،
علیشا اپنے بے ہوش نیچے گرئی پڑی تگی بازو چہرے اتنا بری طرح رگڑا تھا کہ خون نکل آیا تھا،
علیشا میری بچی،
وجہیہ بیگم روتی ہوئی علیشا کے پاس بیٹھی علیشا کے سر اپنی گود میں لیتی اتنے میں سجاد صاحب آگئے بڑھتے علیشا کو اٹھا کر باہر نکلتے بیڈ پر لیٹا دیا،
اس کو چینج کرائیں وجہیہ میں لیڈی ڈاکٹر کو بولتا ہوں سجاد صاحب کہتے کمرے سے باہر نکل گئے تو وجہیہ بیگم روتی علیشا کے بھیگے وجود کو دیکھے کر اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی علیشا نے اپنا چہرہ بازو کی حالت کر دی تگی جہاں سے خون ریس رہا تھا،
لیڈی ڈاکٹر کے آتے علیشا کو دیکھنے لگی تھی سجاد صاحب باہر پریشانی سے ٹہل رہے تھے وہی
بہت گہرا صدمہ لگا ہے ان کو کیسی بات کا اس لے پینک اٹیک آیا ہے آپ ان کا دھیان رکھیں تاکہ کوئی دوسرا صدمہ نہ پہنچے سکون کا انجیکش دئیے دیا ہے یہ دوائیں ہیں ان کو صبح شام دئیے دی جائے گا میں چلتی ہوں لیڈی ڈاکٹر وجہیہ بیگم کو کہتی علیشا کے کمرے سے باہر نکلی،
کیسی ہے میری بیٹی سجاد صاحب نے تڑپ کر پوچھا ،
وہ صدمہ کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں ان کا خیال کریں ویسے مجھے کچھ ذاتی پوچھا اگر آپ کو برا نہ لگے تو ڈاکٹر نے ہچکچاتے پوچھا،
ہاں پوچھیں سجاد صاحب نے اجازت دی،
آپ کی بیٹی نے اتنا گہرا صدمہ لیا ہے اور ان کے وجود پر یہ خرواشیوں کے نشانہ کیا ان کے ساتھ زیادتی کا کیس ہے کیونکہ آپ نے مجھے ایسے ارجنٹ گھر بولیا ڈاکٹر کے پوچھنے پر سجاد صاحب کا دل دہل گیا تھا اپنی بیٹی کے بارے میں یہ سب سن کر،
اللہ رحیم بلکل نہیں سجاد صاحب ایک دم بولے تو لیڈی ڈاکٹر خیال کرنے کا کہتی خاموشی ہو وہاں سے چلی گی،
علیشا میری بچی ،،،،
وجہیہ بیگم تو سر پر بیٹھی علیشا پر دعائیں پھونک پھونک کر ہاتھ پر بوسہ دیتی رہی جو بلکل زرد پڑ چکی تھی ،
وجہیہ بیگم سجاد صاحب کو آتے دیکھے کر خاموشی سے اپنا کام کرتی رہیں،
سجاد صاحب ،،،
وجہیہ بیگم کچھ سوچتے ہوئے پکارا جو علیشا کے پاس بیٹھے بال سہلا رہے تھے جو ہمیشہ حجاب میں رہتے تھے،
ہاں وجہیہ اب کون سی بات ہے سجاد صاحب کو اپنی بیٹی کی حالت دیکھے کر عادل کی حرکت نظروں کے سامنے لہرا کر آتے غصے سے سر پھٹنے پر تھا،
بھائی کو کال کر کے منا کر دئیں ہم کل نہیں جا رہے میری بچی بلکل ایسی حالت میں نہیں اس کو چھوڑ کر میں کہی جاوں وجہیہ بیگم لی بات سن پر سجاد صاحب ایک نظر دونوں کو دیکھے کر کمرے سے نکل کر فضل کو کال ملا کر اپنے نہ آنے کی سب وضاحت دئیے کر کال بند کر چکے تھے،
فضل ہاوس سب الگ پریشان تھے مہمان تو چلے گئے تھے پر ممتاز بیگم کا دل بیٹھا جا رہا تھا،
عادل کی حرکت پر علیشا کیا کرئے گی وہ نہیں جاتنی تھی پر علیشا کا پردے کو لے کر جنون دیکھے چکی تھی ان کو رائے رائے کر اپنے بیٹے ہر غصہ آرہا ،
ابھی تھوڑی دیر پہلے سجاد صاحب نے علیشا کی حالت کا بتا کر کل آنے سے معذرت کر لی تھی جس پر سجاد صاحب کافی غصہ تھے،
عادل غصے سے نکل کر باہر سڑکوں پر گاڑی بھاگا رہا تھا لیکن دل اور دماغ کی جنگ میں دماغ جیت گیا تھا جو علیشا کے لے نفرت کا اعلان کر چکا تھا،
عادل گھر واپس آتے سیدھا اپنے کمرے جانا چاہتا لیکن اپنے گھر والوں کو رات کے ایک بجے تک جاگتے دیکھے کر حیران ہوا ،
آپ سب سوئے نہی،،،،،
چٹاخ،،،،
آہ،
ایک تھپڑ کے بعد پے در پے تپھڑ پڑنے لگے تو ممتاز بیگم ارم چیخ پڑی تھی،
چٹاخ
عادل کے الفاظ منہ میں رہے گئے تھے فضل صاحب نے غصے سے پاس جاتے تیش میں عادل کے منہ پر تھپڑوں کی برسات کر دی تھی،
ڈیڈ،،
عادل بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھا جو آج تک کتنی بڑی بات ہو ہاتھ نہیں آٹھا تھا اوت آج کتنے تھپڑ مارے تھے،
مت کہو ڈیڈ،،،
کون سی گناہ کی سزا ہمیں دی تم نے عادل جو علیشا کو بے نقاب کرتے تمہیں شرم نہیں آئی اس کی عزت کو بھری محفل میں روند کر کیا ملا بولو فضل صاحب گرجتے ہوئے پوچھا،
ڈیڈ وہ کزن ہے اگر کچھ کہے دیا تو کیا برائی تھی نقاب پہن کر کون سا پارسائی کا ڈرامہ لگا رکھا ہے عادل زہرلے انداز میں بولا،
دفع ہو جاو عادل شکل گم کرو نہیں تو حشر کر دوں گا فضل صاحب کے غوارتے ہوئے عادل اوپر چلا گیا،
اپنے کمرے میں جاتے درازہ دھاڑ سے بند کیا جس سے فضل ہاوس کے درو دیوار بھی ہلا دی،
گدھا کہی کا فضل صاحب غوارتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گئے جب ممتاز بیگم نے ارم کو اس کے کمرے جانے کا اشارہ کرتی خود اپنی کمرے کی طرف بڑھ گی،
صبح کے سات بج رہے تھے وجہیہ بیگم ساری رات علیشا کے سرہنہ بیٹھی دعا کرتی رہیں سجاد صاحب الگ بیٹے سوچوں میں گوم تھے،
ا،،،،،،،امی ا،،،،،،ابو
علیشا کی کراہیٹ سے بھری آواز سن کر وجہیہ بیگم نے علئشا کو دیکھا جو سختی سے آنکھیں بند کئے بڑبڑا کر پکرا رہی تھی،
علیشا،،،
ابو،،،،،،
سجاد صاحب کے پیار سے بولنے علیشا چیخ کر ہوش میں آتے آنکھیں کھولے زور زور سے سر نفی میں ہلا کر اپنا چہرہ بازو رگڑ رہی تھی،
علیشا کیا ہو گیا ہے بس کرو وجہیہ بیگم روتے علیشا کو اپنے ساتھ لگائے کہا جو ہوش میں ہوتے ماں میں چھپتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی،
علیشا سب ٹھیک ہے میری شہزادی بیٹی سجاد صاحب نے پیار سے کہا،
نہیں ،
ا،،،،،ابو،،،،
ابو اس نے مجھے سب کے سامنے بے پردہ کر دیا میری عزت سرئے بازار لا کر کھڑی کر دی کل سب غیر مرد کی نظر میں تھی ابو ،،،،،
میں تھی ابو،،،،
میں،،،،
علیشا چیخ کر کہتی اپنے بازو چہرہ رگڑنے لگی،
سب غلطی فہمی سے ہوا میری شہزادی بس کرو سجاد صاحب وجہیہ بیگم کو دیکھا جو علیشا کی پاگلوں جیسی حرکت دیکھے کر رو رہی تھیں،
میری شہزادی کو کوئی بے ابرو کر سکتا وہ اب بھی ویسی ہے اللہ نے کرم کیا میری بچی کوئی بے پردہ نہیں ہوئی چلو ہنسو سجاد صاحب نے اپنے ساتھ لگاتے کہا،
پر ابو،،،،
اللہ دلوں کے راز جانتا ہے میری بچی وہ کبھی غلط نہیں کرئے اور میری شہزادی پردہ کرتی ہے تو کیسے وہ اپنے نیک بندے کو بے پردہ کرئے گا ،
علیشا کچھ بولتی جب ہی سجاد صاحب علیشا کو اپنے ساتھ لگائے پیار سے کھندہ تھپتھپا کہا جسسے علیشا سکون ملتے پھر سے نید کی وادی میں جا چکی تھی ،
جاری
0 Comentarios