ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
میں ابھی آتی ہوں رخشی موبائل کا بھانا کر کے باہر نکلی پیچھے علیشا ا۰نا حجاب بند کر باہر جاتی جبھی کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا علئشا ڈر کر جلدی حجاب کرنے لگی،
رخشی باہر جاتے اپنے بھائی حمیل کو کال کرتے خود نیچے چلی گی جس ہر حمیل مواقعہ کا فائدہ اٹھتے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھتے اندر جاتا سامنے علیشا حجاب سہی کر رہی تھی،
آپ،
علیشا گھبرا کر بولی اس وقت حمیل کا آیت کے کمرے میں آنا ٹھیک نہیں لگا،
ہاں میں کیوں نہیں آ سکتا آپ کو دیکھنے حمیل مسکراتے بولا جس پر علیشا حیران ہوئی لیکن غصہ سے دماغ گھوم گیا تھا،
دیکھیں یہاں سے جائیں نہیں تو اچھا نہیں ہو گا علیشا غصے سے بولی جس پر حمیل بس مسکرا دیا،
آپ کو شرم آنی چاہئے الٹا آپ ہنس رہیں ہیں علیشا کو اب ڈر لگ رہا تھا اتنا اونچا بول رہی تھی پر حمیل کو کوئی فرق نہیں پڑا بلکل اس کے قریب آ کھڑا ہو،
ہم سے کیسی شرم کچھ وقت بعد تو تم میری ہو جاو گی حمیل نے مسکراتے ہوئے علیشا کے حجاب طرف ہاتھ بڑها،
چٹاخ،،
علیشا غصے سے حمیل کو تهپڑ مارتی ہوئی سیڈ سے جاتی جب ہی حمیل نے غصے سے علیشا کا بازو پکڑ کر زور سے پیچهے جهٹکا جس سے علیشا دیوار سے لگی،
بہت اس حجاب پر مان ہے نے جب یہ اترے گا اور تمہارا شوہر بنا حجاب کے میرے ساتھ دیکھے گا تو خود سامنے کئ سامنے طلاق دئیے گا حمیل غصے سے بولا،
علیشا ڈر سے اللہ کو پکارنے لگی تھی حمیل حیوان بنا اس کے عزت خراب کرنے میں لگا تھا،
حیمل پھر سے علیشا کے حجاب کی طرف ہاتھ بڑھتا جب ہی واشروم سے عادل نکل کر آتے سامنے کا منظر دیکھے کر تن فن کرتا حمیل کا ہاتھ پکڑے جھٹکے کر پیچھے پھنکا تھا،
تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کے پاس آنے کی عادل حمیل کے پاس جاتے حمیل کے پیٹ پر پاوں مارتے دھاڑا جس ہر علیشا روتے اپنے رب کا شکر کیا اس کا شوہر پہلے سے یہاں تھا نہیں تو وہ اپنےشوہر کو کیا جواب دیتی،
عادل لگاتار مارتا جا رہا تھا جب ہی سب شور سب کر آیت کے کمرے آ چکے تھے آیت اور رخشی کب سے عادل کو نیچے تلاش کر رہے تھے سامنے دیکھے کر پیسنے چھوٹ چکے تھے،
پاگل ہو گئے ہو عادل کیوں مار رہے ہو میرے بیٹے کو راحیلہ بیگم عادل کو پیچھے کرتی حمیل کو کھڑا کرتے بولی،
اس کمینے نے میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی ہمت کی اس لے عادل پھر سے حمل کو پکڑ کر مارتا جس پر فضل صاحب نے پکڑا تھا،
تمہاری بیوی نے مجھے بولیا تھا یہاں سمجھے خود نہیں آیا اتنی یہ پردے دارنہ حمیل ہمت کرتے بولا،
علیشا نے آنسوؤں لے نفی سر ہلا پر عادل غصے سے حمیل کو گربیان سے پکڑتے اپنے سامنے کیا تھا،
بتا کیسے بولا میری بیوی نے تجھے عادل دھاڑ حمیل کیا سب ڈر سے کانپ گئے تھے،
کال کی تھی حمیل نے ڈرتے کہا عادل تلخی سے ہنستے حمیل کے منہ پر پے در پے مکائے مارنے لگا تھا،
علیشا کے پاس فون ہے نہیں ابھی تو کیسے کال کی تمہیں کمینے انسان عادل ہاگل ہو چکا تھا کیسے اس نے اس کی بیوی کو ہاتھ لگانے کا سوچا تھا،
اتنا یقین اس کل کی آئی لڑکی پر عادل کیا پتا میرا موبائل سے کال کی ہو وہ تو یہی ہیں آیت نے ڈرتے کہا،
ویسے بھی پردے کا ڈرامہ اچھا کر لیتی ہے اور اکیلے میں غیر مردوں کے ساتھ آیت کچھ بولتی جب عادل کی ایک بار پھر دھاڑ پر زبان کو بریک لگی،
آیت،،،،،،،
’ تم جس پر الزام لگا رہی ہو نہ وہ پردے کا اتنا احترام کرتی ہے کے اپنے خدا کے سامنے بهی پردے میں جاتی ہے اپنے خدا کے احکام سے عشق کرتی خدا عشقم کرتی ہے ‘
شرم آتی ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ رہتا رہا ہوں تم لوگ میرے کزن ہو جن کو مرمیری بیوی کو بے پردہ کرنے کا بس ایک مواقعہ چاہئے جن کو اپنے خدا کے احکام کا علم تک نہیں غیر مرد کا ڈر کیا ہوتا وہ اس وقت علیشا کی آنکھوں میں ہے لیکن تم لوگ عادل بولتے ہوئے خاموش ہو گیا تھا،
عادل چلتا علیشا کے پاس آتے ہاتھ پکڑ کر کنرے سے جاتا جب واپس موڑا تھا،
خالہ اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو لے کر میرے گھر واپس قدم رکھا تو اگلی رات جیل میں ہوں گئے اب سے کوئی راشتہ نہیں تم بھی سمجھ لو آیت عادل کہتا علیشا کو اپنے ساتھ لے نکل گیا،
دیکھا کیسے بدتمیزی کر گیا تمہارا بیٹا اس پردے دارنہ کے لے راحیلہ بیگم نخوت سے کہا،
جو عادل نے کہاں سہی کہا خدا خفظ آج سے کوئی راشتہ نہیں ہمارا ممتاز بیگم کہتی باہر نکل ان کے پیچھے فضل صاحب باقی سب تو شوکڈ رہے چکے تھے،
عادل گھر آتے اپنے کمرے چلا گیا علیشا پیچھے گی تو عادل کمرے میں نہیں تھا،
عادل خاموشی سے جائے نماز لے کر نماز نیت کرتے نماز ادا کرنے لگا علیشا یہ سب دیکھے کر ایک طرف کھوسہ نکلا کر فریش ہونے وشراوم گی واپس آتے حجاب باندھ کر نماز ادا کرنے لگی،
علیشا نماز ادا کر کے اٹھ گی لیکن عادل دعا میں ہاتھ اٹھے بیٹھا تھا علیشا خاموشی سے واپس بیڈ پر بیٹھتی لیکن عادل کو روتے دیکھے کر حیرت سے کھڑی ہوتی ،
علیشا چلتی عادل کے پاس نیچے بیٹھتی حیران نظروں سے دیکھا ،
عادل،،،
علیشا کی آواز سن کر عادل سر جھکا گیا تھا لیکن ہمت کرتے علیشا کا ہاتھ پکڑا تھا،
معاف کر دو علیشا،،،،
معاف کر دو پیلز میں نے ہر بار تمہارے پردے پر انگلی اٹھی ہے آج جب میں تمہارے پردے پر یقین کر چکا ہوں تو اس میں میرا صبر ازمانے کے لے وہی سب واپس ہو رہا ہے عادل روتے ہوئے بولا،
میں بہت برا ہوں نہ تمہیں بے پردہ کرنے چلا تھا سہی کہا تھا تم نے عادل نے ہاتھ جوڑے تھے،
عادل ،،،
علیشا ہاتھ پکڑے کہا جو اب بھی رو رہا تھا عادل نے روتے دیکھا جو خود رو دی تھی،
آپ برے نہیں ہیں بس غلط لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے غلط راہ پر چل دئیے تھے میں نے تو آپ کو تب ہی معاف کر دیا تھا جب میں آپ کے نکاح میں آئی اب اللہ نے کوئی امتحان نہیں لیا آپ کا بس ہم لوگوں کی سوچ بدل نہیں سکتے جب تک وہ خود ان مشکلوں سے نہیں گزارتے علیشا نے عادل کو سہی سے سمجھانا چاہا ،
نہیں یہ میرا گناہ ہیں جو سامنے آ رہیں پلیز معاف کر دو علیشا عادل نے پھر سے کہا،
عادل پلیز گناہ گار مت کریں مجھے آپ کو معاف کر دیا تھا اگر پھر بھی سنا چاہتے ہیں تو عادل میں نے دل سے معاف کیا اب بس کرئیں علیشا نے شرمندگی محسوس کر رہی تھی اس کا شوہر اس سے معافی مانگ رہا تھا،
علیشا جیسے تم اس پردے میں رہے کر اپنی حفاظت کی ہے آج میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہاری اور تمہارے پردے پر ایک لفظ نہیں کرنے دوں گا اس کی پوری حفاظت کروں گا عادل نے علیشا کے سر پر بوسہ دیا جس پر علیشا شرم سے سر جھکا گی،
دس روزے رہے گئے عادل اب علیشا کا پورا خیال رکھنے لگا تھا عادل اپنے آفس میں بیٹھا تھا جب اس کی سکیریٹری اندر آئی تھی،
سر آپ کا انویلپ سکیریٹری کے دینے پر عادل جانے کا کہتا انویلپ کھول کر دیکھا سامنے ٹکٹ دیکھے کر مسکراتا علیشا کا چہرہ نظر آتے اپنا بیگ لے نکل گیا،
گھر آتے اپنے ماں باپ کو سلام کرتا اوپر گیا سامنے علیشا فریش ہوئی اپنے بال خشک کر رہی تھی عادل کو یہ منظر دینا کا سب سے پیار لگا،
عادل چلتا بیگ بیڈ پر رکھے علیشا کے پیچھے کھڑا ہوا جو عادل کو دیکھے کر گھبرا کر جلدی سے ڈوپٹہ کھندے پر پھیلاتی جس پرعادل مسکرا دیا،
آپ جلدی آ گئے علیشا کے سوال پر عادل مسکرا دیا تھا ،
جناب چار بج چکے ہیں ویسے بھی مجھے آپ کو ایک گفٹ دینا ہے عادل نے مسکراتے علیشا کے ہاتھ پکڑے کہا،
کیسا گیف علیشا نے حیران ہوتے پوچھا،
یہ رہا گفٹ عادل نے انولیپ سامنے کیا جس کو علیشا لیتی عادل کو دیکھا جو کھولنے کا اشارہ کرتا جس کو علیشا نے کھول کر سامنے کیا تو سامنے چار ٹکٹ تھیں،
یہ،،،،،،
یہ سب عمرے کی ٹکٹ علیشا نے مسکراتے پوچھا،
ہاں جی میں آپ کو، موم ڈیڈ کو کل عمرے کے لے جا رہا ہوں عادل کے کہنے پر علیشا مسکرا اٹھی تھی،
افطاری لے بعد عادل نے فضل صاحب اور ممتاز بیگم کو بتایا جو اپنے بیٹے کو سیدھی راہ پر دیکھے کر شکر کیا تھا،
اگلے دن عادل علیشا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ سعودی کے لے نکلے ،
جہاں عادل کے لے یہ سفر اپنی نئی راہ پر چل رہا تھا جہاں اس کی بیوی نیک تھی خدا نے کوئی نیکی میں یہ راشتہ بنایا تھا،
علیشا نے شکر ادا کیا اس کا شوہر اس کی بنا کہے سن لیتا تھا یہ خوائش تھی علیشا کی جو اس کے رب اور اس کے مجازی خدا نے پوری کی،
آخری عشرے میں عبادت میں زیادہ گزاری رہی تھی عادل کا پیار علیشا کے لے بڑھ چکا تھا ،
عادل اس وقت اپنے کمرے سے خانہ کعبہ کو دیکھتے شکر ادا کر رہا تھا جب علیشا پاس آتے مسکرا دی تھی،
عادل شکریہ میری اس خوائش کو پورا کرنے کے لے علیشا نے کہتے عادل کے کھندے پر سر رکھا تھا،
تم نہ بھی کہو تو میں جانتا تھا علیشا تم خدا کے احکام سے کتنا عشق کرتی ہو خدا کی محبت میں خدا عشقم کرتی ہو تو اللہ تمہاری خوائش کو میرے تک پہنچا ہی دیا عادل علیشا کے کھندے پر ہاتھ پھیلے اپنے حصار میں لیا،
کل ایک اور گفٹ ہے تمہارے لے متاع جاں عادل کے پیقر سے کہنے پر علیشا شرم سے مسکرا دی،
اگلے علیشا عادل سب کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود تھے وہاں کے امامہ نے عادل اور علیشا کا پھر سے نکاح پڑھایا گیا،
علیشا نے عادل سے حق مہر میں عادل سے قرآن کی تلاوت سنے کا کہا ،
عادل نے خوشی سے تلاوت کی اور علیشا کو سنائہ تھی خانہ کعبہ کے امامہ نے عادل اور علیشا کو قرآن پاک کا گفٹ جس کو دنوں نے ایک ساتھ قبول کرتے اپنے آنکھوں سے لگایا ،
علیشا اور عادل کی زندگی بدل چکی تھی عادل برا نہیں تھا بس براے لوگوں کی وجہ سے غلط بن گیا تھا علیشا اپنے رب کی شکر گزار تھی جس نے عادل جیسا شوہر دیا جو زندگی کی ہر خوشی سمجھ سکتا تھا،
ختم شد
رخشی باہر جاتے اپنے بھائی حمیل کو کال کرتے خود نیچے چلی گی جس ہر حمیل مواقعہ کا فائدہ اٹھتے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھتے اندر جاتا سامنے علیشا حجاب سہی کر رہی تھی،
آپ،
علیشا گھبرا کر بولی اس وقت حمیل کا آیت کے کمرے میں آنا ٹھیک نہیں لگا،
ہاں میں کیوں نہیں آ سکتا آپ کو دیکھنے حمیل مسکراتے بولا جس پر علیشا حیران ہوئی لیکن غصہ سے دماغ گھوم گیا تھا،
دیکھیں یہاں سے جائیں نہیں تو اچھا نہیں ہو گا علیشا غصے سے بولی جس پر حمیل بس مسکرا دیا،
آپ کو شرم آنی چاہئے الٹا آپ ہنس رہیں ہیں علیشا کو اب ڈر لگ رہا تھا اتنا اونچا بول رہی تھی پر حمیل کو کوئی فرق نہیں پڑا بلکل اس کے قریب آ کھڑا ہو،
ہم سے کیسی شرم کچھ وقت بعد تو تم میری ہو جاو گی حمیل نے مسکراتے ہوئے علیشا کے حجاب طرف ہاتھ بڑها،
چٹاخ،،
علیشا غصے سے حمیل کو تهپڑ مارتی ہوئی سیڈ سے جاتی جب ہی حمیل نے غصے سے علیشا کا بازو پکڑ کر زور سے پیچهے جهٹکا جس سے علیشا دیوار سے لگی،
بہت اس حجاب پر مان ہے نے جب یہ اترے گا اور تمہارا شوہر بنا حجاب کے میرے ساتھ دیکھے گا تو خود سامنے کئ سامنے طلاق دئیے گا حمیل غصے سے بولا،
علیشا ڈر سے اللہ کو پکارنے لگی تھی حمیل حیوان بنا اس کے عزت خراب کرنے میں لگا تھا،
حیمل پھر سے علیشا کے حجاب کی طرف ہاتھ بڑھتا جب ہی واشروم سے عادل نکل کر آتے سامنے کا منظر دیکھے کر تن فن کرتا حمیل کا ہاتھ پکڑے جھٹکے کر پیچھے پھنکا تھا،
تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کے پاس آنے کی عادل حمیل کے پاس جاتے حمیل کے پیٹ پر پاوں مارتے دھاڑا جس ہر علیشا روتے اپنے رب کا شکر کیا اس کا شوہر پہلے سے یہاں تھا نہیں تو وہ اپنےشوہر کو کیا جواب دیتی،
عادل لگاتار مارتا جا رہا تھا جب ہی سب شور سب کر آیت کے کمرے آ چکے تھے آیت اور رخشی کب سے عادل کو نیچے تلاش کر رہے تھے سامنے دیکھے کر پیسنے چھوٹ چکے تھے،
پاگل ہو گئے ہو عادل کیوں مار رہے ہو میرے بیٹے کو راحیلہ بیگم عادل کو پیچھے کرتی حمیل کو کھڑا کرتے بولی،
اس کمینے نے میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی ہمت کی اس لے عادل پھر سے حمل کو پکڑ کر مارتا جس پر فضل صاحب نے پکڑا تھا،
تمہاری بیوی نے مجھے بولیا تھا یہاں سمجھے خود نہیں آیا اتنی یہ پردے دارنہ حمیل ہمت کرتے بولا،
علیشا نے آنسوؤں لے نفی سر ہلا پر عادل غصے سے حمیل کو گربیان سے پکڑتے اپنے سامنے کیا تھا،
بتا کیسے بولا میری بیوی نے تجھے عادل دھاڑ حمیل کیا سب ڈر سے کانپ گئے تھے،
کال کی تھی حمیل نے ڈرتے کہا عادل تلخی سے ہنستے حمیل کے منہ پر پے در پے مکائے مارنے لگا تھا،
علیشا کے پاس فون ہے نہیں ابھی تو کیسے کال کی تمہیں کمینے انسان عادل ہاگل ہو چکا تھا کیسے اس نے اس کی بیوی کو ہاتھ لگانے کا سوچا تھا،
اتنا یقین اس کل کی آئی لڑکی پر عادل کیا پتا میرا موبائل سے کال کی ہو وہ تو یہی ہیں آیت نے ڈرتے کہا،
ویسے بھی پردے کا ڈرامہ اچھا کر لیتی ہے اور اکیلے میں غیر مردوں کے ساتھ آیت کچھ بولتی جب عادل کی ایک بار پھر دھاڑ پر زبان کو بریک لگی،
آیت،،،،،،،
’ تم جس پر الزام لگا رہی ہو نہ وہ پردے کا اتنا احترام کرتی ہے کے اپنے خدا کے سامنے بهی پردے میں جاتی ہے اپنے خدا کے احکام سے عشق کرتی خدا عشقم کرتی ہے ‘
شرم آتی ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ رہتا رہا ہوں تم لوگ میرے کزن ہو جن کو مرمیری بیوی کو بے پردہ کرنے کا بس ایک مواقعہ چاہئے جن کو اپنے خدا کے احکام کا علم تک نہیں غیر مرد کا ڈر کیا ہوتا وہ اس وقت علیشا کی آنکھوں میں ہے لیکن تم لوگ عادل بولتے ہوئے خاموش ہو گیا تھا،
عادل چلتا علیشا کے پاس آتے ہاتھ پکڑ کر کنرے سے جاتا جب واپس موڑا تھا،
خالہ اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو لے کر میرے گھر واپس قدم رکھا تو اگلی رات جیل میں ہوں گئے اب سے کوئی راشتہ نہیں تم بھی سمجھ لو آیت عادل کہتا علیشا کو اپنے ساتھ لے نکل گیا،
دیکھا کیسے بدتمیزی کر گیا تمہارا بیٹا اس پردے دارنہ کے لے راحیلہ بیگم نخوت سے کہا،
جو عادل نے کہاں سہی کہا خدا خفظ آج سے کوئی راشتہ نہیں ہمارا ممتاز بیگم کہتی باہر نکل ان کے پیچھے فضل صاحب باقی سب تو شوکڈ رہے چکے تھے،
عادل گھر آتے اپنے کمرے چلا گیا علیشا پیچھے گی تو عادل کمرے میں نہیں تھا،
عادل خاموشی سے جائے نماز لے کر نماز نیت کرتے نماز ادا کرنے لگا علیشا یہ سب دیکھے کر ایک طرف کھوسہ نکلا کر فریش ہونے وشراوم گی واپس آتے حجاب باندھ کر نماز ادا کرنے لگی،
علیشا نماز ادا کر کے اٹھ گی لیکن عادل دعا میں ہاتھ اٹھے بیٹھا تھا علیشا خاموشی سے واپس بیڈ پر بیٹھتی لیکن عادل کو روتے دیکھے کر حیرت سے کھڑی ہوتی ،
علیشا چلتی عادل کے پاس نیچے بیٹھتی حیران نظروں سے دیکھا ،
عادل،،،
علیشا کی آواز سن کر عادل سر جھکا گیا تھا لیکن ہمت کرتے علیشا کا ہاتھ پکڑا تھا،
معاف کر دو علیشا،،،،
معاف کر دو پیلز میں نے ہر بار تمہارے پردے پر انگلی اٹھی ہے آج جب میں تمہارے پردے پر یقین کر چکا ہوں تو اس میں میرا صبر ازمانے کے لے وہی سب واپس ہو رہا ہے عادل روتے ہوئے بولا،
میں بہت برا ہوں نہ تمہیں بے پردہ کرنے چلا تھا سہی کہا تھا تم نے عادل نے ہاتھ جوڑے تھے،
عادل ،،،
علیشا ہاتھ پکڑے کہا جو اب بھی رو رہا تھا عادل نے روتے دیکھا جو خود رو دی تھی،
آپ برے نہیں ہیں بس غلط لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے غلط راہ پر چل دئیے تھے میں نے تو آپ کو تب ہی معاف کر دیا تھا جب میں آپ کے نکاح میں آئی اب اللہ نے کوئی امتحان نہیں لیا آپ کا بس ہم لوگوں کی سوچ بدل نہیں سکتے جب تک وہ خود ان مشکلوں سے نہیں گزارتے علیشا نے عادل کو سہی سے سمجھانا چاہا ،
نہیں یہ میرا گناہ ہیں جو سامنے آ رہیں پلیز معاف کر دو علیشا عادل نے پھر سے کہا،
عادل پلیز گناہ گار مت کریں مجھے آپ کو معاف کر دیا تھا اگر پھر بھی سنا چاہتے ہیں تو عادل میں نے دل سے معاف کیا اب بس کرئیں علیشا نے شرمندگی محسوس کر رہی تھی اس کا شوہر اس سے معافی مانگ رہا تھا،
علیشا جیسے تم اس پردے میں رہے کر اپنی حفاظت کی ہے آج میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہاری اور تمہارے پردے پر ایک لفظ نہیں کرنے دوں گا اس کی پوری حفاظت کروں گا عادل نے علیشا کے سر پر بوسہ دیا جس پر علیشا شرم سے سر جھکا گی،
دس روزے رہے گئے عادل اب علیشا کا پورا خیال رکھنے لگا تھا عادل اپنے آفس میں بیٹھا تھا جب اس کی سکیریٹری اندر آئی تھی،
سر آپ کا انویلپ سکیریٹری کے دینے پر عادل جانے کا کہتا انویلپ کھول کر دیکھا سامنے ٹکٹ دیکھے کر مسکراتا علیشا کا چہرہ نظر آتے اپنا بیگ لے نکل گیا،
گھر آتے اپنے ماں باپ کو سلام کرتا اوپر گیا سامنے علیشا فریش ہوئی اپنے بال خشک کر رہی تھی عادل کو یہ منظر دینا کا سب سے پیار لگا،
عادل چلتا بیگ بیڈ پر رکھے علیشا کے پیچھے کھڑا ہوا جو عادل کو دیکھے کر گھبرا کر جلدی سے ڈوپٹہ کھندے پر پھیلاتی جس پرعادل مسکرا دیا،
آپ جلدی آ گئے علیشا کے سوال پر عادل مسکرا دیا تھا ،
جناب چار بج چکے ہیں ویسے بھی مجھے آپ کو ایک گفٹ دینا ہے عادل نے مسکراتے علیشا کے ہاتھ پکڑے کہا،
کیسا گیف علیشا نے حیران ہوتے پوچھا،
یہ رہا گفٹ عادل نے انولیپ سامنے کیا جس کو علیشا لیتی عادل کو دیکھا جو کھولنے کا اشارہ کرتا جس کو علیشا نے کھول کر سامنے کیا تو سامنے چار ٹکٹ تھیں،
یہ،،،،،،
یہ سب عمرے کی ٹکٹ علیشا نے مسکراتے پوچھا،
ہاں جی میں آپ کو، موم ڈیڈ کو کل عمرے کے لے جا رہا ہوں عادل کے کہنے پر علیشا مسکرا اٹھی تھی،
افطاری لے بعد عادل نے فضل صاحب اور ممتاز بیگم کو بتایا جو اپنے بیٹے کو سیدھی راہ پر دیکھے کر شکر کیا تھا،
اگلے دن عادل علیشا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ سعودی کے لے نکلے ،
جہاں عادل کے لے یہ سفر اپنی نئی راہ پر چل رہا تھا جہاں اس کی بیوی نیک تھی خدا نے کوئی نیکی میں یہ راشتہ بنایا تھا،
علیشا نے شکر ادا کیا اس کا شوہر اس کی بنا کہے سن لیتا تھا یہ خوائش تھی علیشا کی جو اس کے رب اور اس کے مجازی خدا نے پوری کی،
آخری عشرے میں عبادت میں زیادہ گزاری رہی تھی عادل کا پیار علیشا کے لے بڑھ چکا تھا ،
عادل اس وقت اپنے کمرے سے خانہ کعبہ کو دیکھتے شکر ادا کر رہا تھا جب علیشا پاس آتے مسکرا دی تھی،
عادل شکریہ میری اس خوائش کو پورا کرنے کے لے علیشا نے کہتے عادل کے کھندے پر سر رکھا تھا،
تم نہ بھی کہو تو میں جانتا تھا علیشا تم خدا کے احکام سے کتنا عشق کرتی ہو خدا کی محبت میں خدا عشقم کرتی ہو تو اللہ تمہاری خوائش کو میرے تک پہنچا ہی دیا عادل علیشا کے کھندے پر ہاتھ پھیلے اپنے حصار میں لیا،
کل ایک اور گفٹ ہے تمہارے لے متاع جاں عادل کے پیقر سے کہنے پر علیشا شرم سے مسکرا دی،
اگلے علیشا عادل سب کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود تھے وہاں کے امامہ نے عادل اور علیشا کا پھر سے نکاح پڑھایا گیا،
علیشا نے عادل سے حق مہر میں عادل سے قرآن کی تلاوت سنے کا کہا ،
عادل نے خوشی سے تلاوت کی اور علیشا کو سنائہ تھی خانہ کعبہ کے امامہ نے عادل اور علیشا کو قرآن پاک کا گفٹ جس کو دنوں نے ایک ساتھ قبول کرتے اپنے آنکھوں سے لگایا ،
علیشا اور عادل کی زندگی بدل چکی تھی عادل برا نہیں تھا بس براے لوگوں کی وجہ سے غلط بن گیا تھا علیشا اپنے رب کی شکر گزار تھی جس نے عادل جیسا شوہر دیا جو زندگی کی ہر خوشی سمجھ سکتا تھا،
ختم شد
0 Comentarios