ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
پورے چار دن ہی علیشا کی رخصتی کو تھے اور آج وہ دن سر پر آکھڑا تھا علیشا کو آج بھی بیوٹیشن گھر میں تیار کرنے آئی تھی ،
علیشا آج اپنی امی ابو کے پسند کردا بھاری کام دار گولڈن شرارے میں موجودہ گھوٹنوں تک آتے ہم رنگ بھاری کام دار فراک اچھے سے لیا سر پر ڈوپٹہ اور سلک کا پلین گولڈن حجاب ایسے بندھا تھا کئے غلطی سے بھی نہ کھولے زیورات میں سر پر ایک طرف جھومر گلے میں ہار جھمکے تو حجاب میں گوم ہو چکے تھے،
ہال میں بارات کے ساتھ مہمان بھی آ چکے تھے فضل صاحب کھانے کے بعد ممتاز بیگم کو رخصتی کا وقت بتایا جس پر ممتاز بیگم وجہیہ بیگم کو کہا جو ارم کے ساتھ علیشا کو لا کر عادل کے ساتھ بیٹھا جو ہر چیز سے اُکتا چکا تھا،
تھوڑی دیر میں رخصتی کا کہا گیا تو سجاد صاحب علیشا کو قرآن کے سایہ میں رخصت کرنے کے لے آگئے بڑھے،
ابو،،
علیشا رخصتی کے وقت سجاد صاحب کے سینے پر سر رکھے رو دی تھی یہ وقت ہر لڑکی کے لے مشکل ہوتا ہے اپنے باپ کا آنگن چھوڑ کر دوسرے آنگن جانا،
وجہیہ بیگم سے ملتے آخر علیشا ممتاز بیگم کے ساتھ گاڑی میں پیچھے بیٹھتی ہال سے دور ہوتی ماں باپ کی آنکھوں سے اوچھل ہو گی،
ادھے گھنٹے کے فاصلے طے کرتے سب فضل ہاوس موجود تھے ممتاز بیگم اور ارم نے مل کر علیشا کو گاڑی سے نکلنے میں مدد کی کیونکہ علیشا کا شرارہ بہت بھاری تھا،
روکیں بھائی کہاں چلے،
مطلب عادل بیزار تھا اوپر سے ارم نے راستہ روک لیا تھا،
بھائی جلدی سے میرا نیگ دئیں ارم دروازے پر کھڑی ہنس کر بولی،
نیگ ہاہاہا نیگ تب بنتا ہے جب تمہاری بھابھی کا چہرہ سب نے دیکھا ہوتا پر یہاں تو تمہاری بھابھی سات پردوں میں آئی پتا نہیں کون سا گناہ ہے جو منہ چھپنا پڑا ہے آیت طنز ہنس کر کہا جس پر علیشا کا سر جھکتا اور جھکا اتنی ظلت کبھی محسوس نہیں کی،
آیت بیٹا پردہ کرنے سے علیشا اپنا گناہ نہیں اپنی خوبصورتی سنمبھالے اپنے شوہر کے لے آئی ہے اور جو منہ آٹھا کر باہر جاتی ہیں نہ بنا پردے ڈوپٹہ کے وہ سچی مبہ دیکھنے کے قابل نہیں رہتی سمجھی بیٹا ممتاز بیگم کے جواب پر آیت اپنا شرمندگی سے سرخ چہرہ لے سر جھکا گی وجہ وہ خود بھی بغیر ڈوپٹے کے موجود تھی،
عادل بہن کو نیگ دو کس کا انتظار کر رہے ہو ممتاز بیگم کے جھڑکنے پر عادل جلدی سے نیگ دیتا ارم خوشی سے سامنے سے ہٹ گی ،
علیشا نے شکر ادا کیا اس کی مامی روایتی ساس نہیں ماں بن کر ساتھ دئیے رہی تھیں،
کچھ رسم کرنے کے بعد ممتاز بیگم ارم کے ساتھ علیشا کو عادل کے کمرے لے آئیں اور ارم کو جانے کا اشارہ کیا تو ارم مسکرا کر کمرے سے باہر نکل گی،
علیشا میں بہت خوش ہوں کئے تم میرے بیٹے کی زندگی میں ہمسفر بنی ہو جانتی ہوں عادل نے تمہارے ساتھ برا کیا لیکن بیٹا دونوں کی زندگی تبھی اچھی گزارے گی ممتاز بیگم نے پیار سے سمجھایا،
مامی،،
مامی پہلے تھی اب ماما کہو ممتا بیگم نے بیچ میں ٹوکتے مسکرا کر کہا،
جی،
ماما میری طرف سے آپ کو کبھی شکایت کا مواقع نہیں ملے گا آپ پریشان نہ ہوں پہلے جو انھوں میرے ساتھ کیا وہ تب میرے نامحرم تھے اس لے غصے میں سب ہوا اب محرم ہیں میں ان سے برابری تھوڑی کر سکتی ہوں اللہ کے سامنے گناہ نہیں کر سکتی علیشا نہ آرام سے کہا،
ممتاز بیگم کا دل سکون سے بھر چکا تھا ان کی بہو اللہ کا دیا کوئی بیکی کا تحفہ تھی جو ان کے بیٹے کی بیوی بنی تھی،
ماشااللہ مجھے تم پر پورا یقین ہے میرے بیٹے کو سیدھ کر دو گی تم بیٹھو میں عادل کو بھجتی ہوں ممتاز بیگم علیشا کے ست پر بوس دیتی باہر چلی گی پہچھے علیشا بوکھلا کر ہاتھوں کو مسلہ کیونکہ عادل کا روایہ کیسا ہو گا وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی،
عادل،،
ممتاز بھی باہر آتے چھوٹے سے لون میں سب کزنز کو باتیں کرتے دیکھے کر سر نفی میں ہلاتی ان کی طرف بڑھی،
جی موم،،
عادل کھڑا ہوتا بولا اتنے میں ممتاز بیگم پاس آ چکی تھی،
تم یہاں کیا کر رہے ہو اوپر جاو اپنے کمرے علیشا انتظار کر رہی ہے ممتاز بیگم کم آواز میں عادل کو کہا،
جی موم،،،
عادل آواز میں بیزاریت لے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا پیچھے کزنز سب مسکرا اپنی باتوں میں لگ گئے وہی آیت منہ بنا کر اپنی ماں کے پاس آتے واپس جانے کو کہا کیونکہ عادل کو علیشا کا سوچ کر ہی آیت کا دماغ خراب ہو رہا تھا،
ایسے تو نہیں چھوڑوں گی تمہیں علیشا عادل کو میں پسند کرتی تھی اور تم اتنے آرام سے لے گی آیت سوچتی دل میں کہا،
عادل کمرے تک آتے ایک گہرا سانس لے اندر داخل ہوا سامنے علیشا کو اپنے بیڈ پر بیڈ دیکھے کر اپنی ابرو اچکا کر رہے گیا،
دروازہ بند ہونے پر علیشا اور سمیٹ کر بیٹھی عادل سے تو ویسے ڈر تھا اوپر سے شرم آنا ،
عادل علیشا کو دیکھا جو آج بھی ویسے تھی جیسے پہلے دن تو کیوں نہ حجاب کو اترا جائے دیکھوں اور کتنے ڈرامہ کرتی ہے عادل بڑبڑاتے ہوئے علیشا کے ساتھ بیٹھا جو توڑا اور سمیٹی،
ا،،،اسلام و علیکم،،
عادل کو ایسے خاموش دیکھے کر علیشا گھبراہٹ سے بولی جس ہر عادل حیرت سے مسکرا جو کبھی شیرنی بن کر اس سے موقبلہ کرتی تھی اب جھجھک رہی تھی،
وعلیکم اسلام ،،
عادل نے روخے پن سے جواب دیتے علیشا کو دیکھا جو سر جھکے بیٹھی تھی،
عادل علیشا کی طرف جھک کر حجاب کو اترتا نظریہ تھام سی گی تھی علیشا کی خوبصورتی پر،
کچھ وقت تو عادل کو لگا علئشا اگر حجاب نہ کرتی تو اس کی خوبصورتی دیکھے کر کوئی بھی دل ہار جاتا لیکن علیشا کا حجاب کرنا ڈرامہ لگا اس لے پل میں چہرے پر سختی لے کھڑا ہو کر آئینہ کے سامنے جاتا اپنی گھڑی اتر کر علیشا کو دیکھا جو اب بھی ویسے بیٹھی تھی،
علیشا عادل سے ڈری ہوئی تھی لیکن عادل کا روایہ علیشا کو کنفیویز کرتا جب عادل کی آواز کانوں سے ٹکرائی،
واہ واہ کیا پردہ ہے نہ تمہارا میرے کمرے تک آتے ہی تمہارا یہ حجاب اتر گیا نہیں عادل طنز ہنستا ہوا علیشا کو کہا،
علیشا خاموشی سے سن رہی تھی وجہ سامنے اس کا محرم کھڑا تھا ،
آپ نے خودی اتار ہے حجاب تو اب مجھے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اب آپ میرے محرم ہیں تب بات اور تھی علیشا سر جھکے تحمل سے جواب دیا،
میرے سامنے یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی بہت دیکھیں ہیں پردے کا ڈرامہ کر کے بعد میں اپنی عادئیں دیکھنے والی اور تم بھی وہی ہو سب کے سامنے پردے کرنا اور اب یہاں نہیں عادل علیشا کا بازو دبوچے جھکٹے سے اپنی طرف کرتے بولا،
میں پردے سب کے لے نہیں اپنے اللہ کے حکم ہر کرتی ہوں رہی بات پہلے کی تو آپ پہلے میرے نا محرم تھے اب میں آپ کے نکاح میں ہوں ،
میرے لے تم کوئی اہمیت نہیں رکھتی کچھ دن میں خود اپنی اصل میں آ جاو گی اور سب ہی تمہارے یہ پردے کا ڈرامہ سمجھ جائیں گئے عادل علیشا کو جھٹکے سے چھوڑتے فریش ہونے چلا گیا پیچھے علیشا لو برا لگا تھا وہ کوئی ڈرامہ کیوں کرئے ،
عادل باہر آیا تو علیشا اپنا بھاری شرارہ سنمبھال کر کھڑی ہوتی اپنی جیولر اتار کر رکھتے سہی سے ڈوپٹہ اپنے پر پھیلائے فریش ہونے جاتی لیکن عادل کو کھڑا دیکھے کر روک گی،
مجھے فریش ہونے جانا ہے پلیز راستہ دئیں علیشا نے نظریں جکھے کہا جس پر عادل ست جھٹک کر سیڈ سے گزار گیا ،
علیشا فریش ہو کر باہر آتی کھولی سی لان کی لال شرٹ وائٹ ٹراوزر سر ہر سہی سے حجاب لے کر جے نماز لیتے عیشا لی نماز ادا کرنے کے لے کھڑی ہوئی،
علیشا کو نماز پڑھتے دیکھے کر عادل صوفے پر لیٹتا علیشا کا جایز لیا جو مکمل اپنے آپ کو چھاپ کر نماز ادا کر رہی تھی،
علیشا نماز ادا کر کے موڑی تو عادل کو صوفے پر لیٹا دیکھے کر حیرات ہوئی،
آپ یہاں کیوں لیٹے ہیں بیڈ پر آرام کرئیں علیشا کی بات سن کر عادل موبائل سے نظریں ہٹا کر علیشا کو دیکھا،
میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں خاموشی سے سو اور مجھے سونے دو عادل غصے سے کہتا موبائل ٹیبل پر رکھتا آنکھیں موندے لیٹا گیا،
علیشا افسوس سے سر ہلا کر جائے نماز رکھتی بیڈ پر جا کر لیٹے اور کب آنکھ لگی پتا نہیں چلا ،
دہم،،،،
علیشا کی آنکھ تب کھولی جب کوئی بہت زور سے گرنے کی آواز آئی،
یا اللہ خیر ،،،
علیشا سیدھی ہوتی ادھر ادھر دیکھا سامنے عادل صوفے سے نیچے گرا تھا،
آپ ٹھیک ہیں علیشا جلدی سے بیڈ سے کھڑی ہوتی عادل کے ہاس آئی جو اپنی کمر پکڑے علیشا کو گھور کر دیکھا مطلب صاف نظر آ رہا ہے پھر بھی بے فضول سوال عادل کہتے کھڑا ہوا،
سوری،
علیشا اپنی ہنسی دبائی بولی کیونکہ عادل اب جھک کر چلتا واشرم کی طرف بڑھا پیچھے علیشا کھکلا کر ہنستی وقت دیکھا جہاں صبح کے نو بج رہے تھے علیشا شرمندگی سے اپنے اللہ سے معافی مانگتے جلدی اپنے کپڑے لینے گئ ،
علیشا تیار سی کھڑی تھی جب دراوزے پر دستک ہوئی تبھی عادل سر آٹھا کر دیکھا جو موبائل دیکھے رہا تھا اب علیشا کو جو جلدی سے حجاب بندھا کر اس کو دیکھا تو عادل آنکھیں گھومتا دروازہ کھول سامنے ملازمہ علیشا کے امی ابو کے آنے کا بتا کر چلی گی،
ہو گیا تمہارا پردہ تو چلیں عادل نے موڑتے بزاریت سے پوچھا جس ہر علیشا سر ہلا کر عادل کے پیچھے چل دی،
اسلام و علیکم ،،
علیشا نیچے آتے سلام کرتے سب سے مل کر اپنے امی ابو کے ساتھ لگ کر بیٹھ گی علیشا کو کوئی دوسرا نہ دیکھا تو اپنا حجاب اتار دیا تھا،
ہنسی خوشی ناشتہ کرنے کے بعد سجاد صاحب وجہیہ بیگم علئشا کو مل کر اپنی گھر واپس گئے پیچھے فضل صاحب ولیمہ کی تیاریوں میں لگ گئے عادل باہر نکل گیا اور علیشا ممتاز بیگم کے ساتھ لگ گی
دو دن ہو گئے علیشا اور عادل کے ولیمہ کو عادل علیشا کو بولتا تک نہیں تھا بس خاموشی سے اپنے کام پر نکل جاتا،
شام کے وقت فضل صاحب ٹی وی لگا کر رمضان کے چاند کی خبر سنائے والے تھے ساتھ ممتاز بیگم بیٹھی تھیں جب ہی عادل اپنا لیپ ٹوپ بیگ لے اندر داخل ہوا،
اسلام و علیکم موم ڈیڈ،،،
عادل کی آواز پوعے لاونچ میں گونجی تو دونوں نے سر ہلا کر مسکرا کر جواب دیا تھا،
اسلام و علیکم،،
علیشا پانی کا گلاس لا کر روز کی طرح سامنے کیا جس پر عادل ماں باپ کی وجہ سے مسکرا کر آٹھا کر پی لیا،
عادل ایک نظر علیشا پر بنا ڈالے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا،
ہاں تو ناظراین آپ کو بتاتے چلیں رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے کل ملک بھر میں پہلا روزہ ہو گا،
رمضان مبارک ماموں مامی علیشا نے مسکراتے کہا ،
تمہیں بھی بیٹا اللہ تمہارے نصیب چمکے میں جا کر نماز ادا کروں فضل صاحب کہتے باہر مسجد کی طرف بڑھے،
میں بھی نماز ادا کروں پھر سب کھانا کھاتے ہیں ممتاز بیگم مسکرا کر علیشا کا گال تھپتھپا کر اندر بڑھ گی،
علیشا عادل کا لیپ ٹوپ بیگ لے مسکرا کر لیتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی سامنے عادل فرش سا باہر آتے اپنے بال خشک کر رہا تھا،
رمضان کا چاند مبارک ہو علیشا مسکرا کر عادل کو کہا جو ٹاول بیڈ پر پھنکتے علئشا کو دیکھا،
ہاں تو اتنا مسکرانے کی کیا ضرورت میرا ساتھ زیادہ خوش ہونے کے ڈرامے نہ کرو عادل روخی سے بولا،
کیوں بیوی ہوں میرا حق ہے اپنے شہر سے مسکرا کر بات کرنے کا کوئی دوسری کا نا محرم کا نہیں علئشا عادل کے کپڑے دھونے والے کپڑوں میں ڈال کر بولتی باہر چلی گی پیچھے عادل نے دانت پیسے تھے جانتا تھا دو دن سے وہ اس کو نامحرم لڑکی کا تنا کیوں دئیے رہی ہے غلطی سے علیشا کے سامنے سکیٹری سے مسکرا کر بات جو ہوئی تھی،
عادل حیران تھا وہ علیشا کے ساتھ اتنا برا روایہ رکھئے ہوئے تھا اور بلکل خاموشی سے ہنس کر جواب دیتی ،
جاری
0 Comentarios