خدا عشقم
ازقلم
نور_ملک
Don't copy past without my permission
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
پھول پانی پر کھلا مری موجودگی کا
سلطنت صبح بہاراں کی
بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے
سبک رفتار
پیہم گھومتے پہیے
گراں خوابی سے جاگے
آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا
پیار کرتا
رقص فرماتا
ارے!!!
سورج نکل آیا.....
گرمیاں کی آمد سے پہلے بہار کے موسم نے قدم رکھے ہر طرف ماحول کو خوبصورت بنا ہوا تھا،
علیشا،،،
وہ جو ہلکے نیلا پڑتے آسمان کو دیکھتے کو دیکھتی اس قدرت کی خوبصورتی کو محسوس کر رہی تھی جب نیچھے سے اپنی ماں کی آواز سن کر اپنی شاعری کی کتاب آٹھا کر نیچھے بھاگی،
جی امی،،
علیشا نیچے آتے وجہیہ بیگم کے سامنے ہوتے مسکرا کر پوچھا،
ابھی تک تیار نہیں ہوئی کب سے کہا تھا تمہیں دیکھنے کے لے لوگ آرہیں پھر بھی وہی اپنی فضول کی شاعری کی کتاب لے موسم دیکھنے چھت پر چلی گی وجہیہ بیگم علیشا پر بھرم ہوئی،
امی ابھی تو ان کو آنے میں دو گھنٹے تھے اس لے اوپر گی تھی اور مجھے کیا تیار ہونا ہے بس اچھے سے کپڑے پہن کر نقاب لینا ہے اچھے سے علیشا کندھے اچکا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی،
خبردار کوئی نقاب کیا ہو تم نے ٹانگیں توڑ دوں گی غذاب خدا کا جو راشتہ آتا تمہارے اس نقاب کرنے کی وجہ سے چھوڑ کر چلا جاتا ہے وجہیہ بیگم غصے سے بولی،
امی ان لوگوں نے مجھے دیکھنا ہے تو دیکھ لیں لیکن پلیز میرے نقاب کو لے کر میں کچھ نہیں سنوں گی یہ میرا محفوظ ہے علیشا اپنے کمرے میں بند ہوتی بول کر جا چکی تھی،
دیکھتی ہوں آج کیسے کرتی ہو نقاب وجہیہ بیگم دانت پیستی کچن کی طرف بڑھی ملازمہ کو ان کے کام بتانے،
سجاد صاحب کا پرواپٹی کا کام تھا ان کی شادی وجہیہ بیگم خاندان سے باہر ہوئی تھی وجہیہ بیگم اخلاق کی اچھی تھیں ان دونں کی ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی علیشا شکل صورت کے ساتھ کردار بھی خوبصورت پایا تھا،
علیشا نقاب اور پردے میں رہنے والی تھی جو وجہیہ بیگم کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا،
ہر بار راشتے آتے پر یہ کہے کر چلے جاتے آپ کی بیٹی نقاب کیوں نہیں اتار دیتی ہمارے سے کیا پردہ اس بات پر وجہیہ بیگم علیشا پر خوب برستی تھیں پر علیشا خاموش رہے کر اپنے دل کی کرتی،
آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں مسز خان وجہیہ بیگم لوازمات آگئے کرتے مسکرائی،
ارے نہیں مسز سجاد بہت کچھ لیا ہے اب اگر کچھ لینا ہے رو وہ کے گھر کی رونق میرا مطلب آپ کی بیٹی بس اس کو بولا دیں مسز خان مسکراتے کہا،
ارے کیوں نہیں ابھی بولا دیتی ہوں وجہیہ بیگم نے مسکراتے کہا،
فرعت جاو علیشا کو بولا لاو وجہیہ بیگم مسکرا کر کہتی واپس مسز خان سے باتوں میں لگ چکی تھیں،
سجاد صاحب تو علی خان سے باتوں میں لگے تھے دونوں کو تو عورتوں کی بات سے دور تک کوئی لینا دینا نہیں،
علیشا فرعت کے ساتھ نیچے آتے ڈینگ روم میں قدم رکھا تو وہی وجہیہ بیگم کی مسکراہٹ ختم ہو چکی تھی،
مسز خان بھی علیشا کو دیکھے کر حیران ہوئی جب علیشا چلتی وجہیہ بیگم کے پاس بیٹھی،
یہ آپ کی بیٹی مسز خان تو علیشا کو نقاب میں دیکھے کر حیران تھیں،
علیشا آج پھر نقاب کر کے آئی تھی جس پر وجہیہ بیگم نے سر پیٹ لیا،
جی ہماری بیٹی علیشا وجہیہ بیگم نے مسکراتے علیشا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے سختی سے گرفت میں لیا،
علیشا درد سے اپنی ماں کو دیکھتی لیکن کیا کرتی علیشا کو بلکل پسند نہیں تگا کوئی غیر محرم اس کی ایک جھلک بھی دیکھے،
بیٹی اپنا چہرہ تو دیکھو ہم سے کیا چھپنا مسز خان نے مسکراتے کہا ،
جس پر علیشا گھبرا کر اپنے باپ کو دیکھا جواب بلکل ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے،
معذرت کے ساتھ انٹی پر میں غیر مردوں کے سامنے نقاب نہیں اتار سکتی یہ باہر چلے جائیں تو میں اتار دوں گی نقاب علیشا کا اشارہ مسٹر خان اور ان کے بیٹے وسیم سے تھا جو پاس ہی بیٹے تھے،
واٹ،،،
مسز خان کو کیا وسیم کو بھی کرنٹ لگا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے دواری طرف مسٹر خان علیشا کی بات پر ہلکا سا مسکرا کر کھڑے ہوئے،
آ جاو باہر وسیم آپ کی ماں دیکھیں لیں گی تو ہمیں بولا لیں گی مسٹر خان کی بات سن کر جہاں سجاد صاحب مسکراتے کھڑے ہوئے وہی مسز خان کی بات پر روک گئے تھے،
یہ کیا مزاق ہے کل کو آپ کی بیٹی نے اس کے ساتھ رہنا ہے پھر یہ نقاب پردے کا ڈرامہ کیوں مسز خان غصے سے بھڑک کر کھڑی ہوئی،
پہلی بات انٹی راشتہ ابھی بنا نہیں ہے اور یہ پردہ کوئی ڈرامہ نہیں میرے اللہ کا حکم ہے ہر عورت پر پردہ فرض ہے اگر آپ کو ڈرامہ لگاتا ہے تو معذرت مجھے یہ راشتہ قبول نہیں علیشا پردے کے معاملہ میں ایسے ہی تھی زار سی بات پر بگڑ جاتی تھی،
اٹھو وسیم مجھے بھی نہیں کرنی اپنے بیٹے کی شادی ایسی پردے دارن سے سنمبھال کر رکھے اس کو علیشا کی بات سے مسز خان آگ بگوالہ ہوتے نکل گی،
میں معذرت چاہتا ہوں اپنی بیوی کی طرف سے مسٹر علی شرمندہ سے سجاد صاحب کو کہے کر نکلے ،
خوش دل کو سکون مل گیا وجہیہ بیگم جو غصے سے بھری بیٹی تھے ممہانوں کے جاتے کھڑی ہوتی علیشا پر برستی ڈینگ روم سے نکل گی،
بہت اچھا کیا میری شہزادی نے سجاد صاحب فخر سے کہتے مسکراتے ہوئے علیشا کو اپنے ساتھ لگا گئے جو اپنے ماں کے اس روائے سے رو دیتی لیکن باپ کی شیفقت پر مسکرا اٹھی تھی،
رات کے کھانے کے بعد علیشا خود چاہئے بناتی تھی اس لے ملازمہ کو اس کا کام کرنے پر خود چاہے بناتی کپ میں ڈالتے ٹرے اٹھا کر ٹی وی لونچ میں چل دی،
آ گی سات پرودں میں رہنے والی ملکہ وجہیہ بیگم کا غصہ کیسی طور کم نہیں ہو رہا تھا اس لے علیشا کو چائے لاتے دیکھے کر دانت پیستی بولی،
سوری نہ یہ لیں چائے پیں غصے مت کرئیں نہ میری پیاری امی علیشا مسکرا کر کہتی چاہے کا کپ وجہیہ کو دیا،
دور رہو اپنی مانی کر کے دل کو سکون ملا گیا تمہیں کیا ہم چاہئے ذلیل ہوں وجہیہ بیگم علیشا کو پئچھے جھٹکتی کپ لیتی غصے سے بولی،
ابو آپ پلیز بات کریں نہ امی سے مجهے سے جس کو بهی شادی کرنی ہے وہ بغیر دیکهے بهی تو ہاں کر سکتا ہے نہ علیشا جو اچهے سے سر پر ڈوپٹہ لے سجاد صاحب کو رات کی چائے دیتے بولی،
وجہیہ بیگم کیوں ہماری بیٹی کو تنگ کرتی ہیں بھی اگر اس کو نہیں پسند تو کیوں آپ زبردستی کرتی ہیں سجاد صاحب نے اپنی بیٹی کو ساتھ لگاتے کہا،
بس کردیں سجاد آپ میں اس کی ماں ہوں برائی کیا ہے ہر بار راشتہ آتا اور ہر بار سب یہ کہتے ہیں اس کا یہ نقاب کرکے سامنے آنا ضروری تها وجہیہ بیگم نے اپنی بیٹی کو گھورتے ہوئے کہا،
برائی یہ ہے امی کے وہ لڑکی دیکھنے نہیں اپنے بیٹے کے لے ایسی لڑکی تلاش کرنے آتے ہیں جو ان کے معاشرے کی زینت بنائے گھر کی عزت نہیں اور مجھے گھر کی چار دیواری میں رہے کر اپنی عزت بنانی ہے باہر معاشرئے کی زینت نہیں بنا علیشا سر جھکے آداب کے دائرہ میں جواب دیا،
حضرت خدیجہ ؓ نے فریاما ہے:
’عورت کے لے بہترین زیوز پردہ ہے اور پردیدار عورتیں جنت میں میری بیٹی فاطمہ کے ساتھ ہونگی‘
اور جو آپ کے راشتہ دیکھنے آتے ہیں ان میں غیر محرم مرد ہوتے ان کے سامنے میں نقاب نکال کر گلے کی زینت نہیں بنا سکتی کیونکہ میں ایک عورت ہوں میرے سر پر تاج کی طرح ڈوپٹہ سر پر سجتا ہے گلے میں ڈالنے سے ڈوپٹہ نہیں جانور کو پٹہ لگتا ہے علیشا نے سر جھکے کہا،
تم اگر نقاب کرتی ہو سات پردے میں رہتی ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب تمہاری نظر میں برے ہو جائیں وجہیہ بیگم علیشا کی بات پر بگڑ کر بولی،
جس پر علیشا گھبرا کر اپنے ڈوپٹے کو اپنی انگلیوں کو موڑنے لگی تھی تو سجاد صاحب کو برا لگا،
وجہیہ بیگم بس،،،،
سجاد صاحب نے ہاتھ کھڑا کرتے روب دار آواز میں آنکھوں کے اشارے سے خاموش کروایا دیا،
جو میری شہزادی آرام کرو سجاد صاحب کے کہنے پر علیشا ایک نظر اپنی ماں لو دیکھتی خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گی،
آپ کو تو خوش ہونا چاہئے آپ کی بیٹی اپنی حفاظت اس پردے میں رہے کر کرتی ہے لیکن آپ ہر بار اس کو برا کہتی ہیں اب بس علیشا کو بلکل نہیں پسند یہ سب لیکن آپ کے کہنے پر میں یہ سب برداشت کر رہا تھا ،
لیکن،
لیکن وکین کچھ نہیں میری بیٹی کو نہیں پسند کوئی غیر محرم ہو تو اب سے ایسا کوئی راشتہ آئے صاف منا کر دئیں سجاد صاحب اپنی بات کرتے چائے پینے لگے تو وجہیہ بیگم کی کیا مجال جو کچھ بولتیں،
فضل ہاوس،،،،
کیا وجہیہ خود اور بھائی صاحب بہت کم آتے ہو اور علیشا اس کی شکل دیکھے کتنا وقت ہو گیا اب تو تمہاری بھانجی کی شادی ہے اب تو کچھ ہفتہ پہلے آ جاو ممتاز بیگم نے فون کان سے لگائے کارڈ دیکھتے کہا،
میرا بھی بہت دل ہے ارم کی شادی میں پہلے آ جاوں اور تمہارا ہاتھ بٹا دوں پر یہ دو باپ بیٹی کے کام مت پوچھو سجاد احب اتنے دن پھر ملازمہ کے ہاتھوں لا کھانا کہاں برداشت کرتے ہیں وجہیہ بیگم بھی مسکرا منہ بناتے کہا،
چلو کوئی بات نہیں پر پلیز علیشا کو وقت سے پہلے بھجنا ارم کو تو پوچھو مت پوچھ پوچھ کر پاگل کر دیا علیشا کب آئے گی میں تمہارے بھائی بھی بہت یاد کرتے ہیں ممراز بیگم کارڈ ملازمہ کو دیئے کر اب بلکل وجہیہ کی طرف متوجہ ہوئی،
ٹھیک ہے کرتی ہوں اس سے بات بھجتی ہوں علیشا کو تمہارے پاس بھی ابھی مجھے کھانے کا انتظام کرنا ہے پھر بات ہو گی وجہیہ بیگم مسکرا کر کہتی کال بند کر گی،
ہو گی بات ماما پھپھو سے رلئشا کو بھج رہی ہیں نہ ارم جو ان کے کمرے میں آئی تھی ممتاز بیگم کی بات سن کر اکیسٹڈ ہو کر پوچھا،
ہاں کی ہے بات تمہاری پھپھو سے بھی جان کھا گی ہو میری آ جائے گی وہ ممتاز بیگم کہتی کھڑے ہو کر المارہ کی طرف بڑھی،
اووووو،
ماما تینکیو سو مچ ،،،،
ارم ممتاز بیگم کو پیار سے گلے لگی باہر کو بھاگی آخر کو یہ خبر اس نے اپنے پیارے بابا جان کو جو بتانی تھی،
بلکل پاگل ہے اللہ میری اور دنیا کی تمام بچیوں کے نصیب اچھے کرنا ممتاز بیگم دعا کرتی اپنے کام میں لگ گی،
فضل صاحب کی شادی ان کی خالہ زاد سے ہوئی تھی نید بھابھی کی بناتی بھی بہت تھی،
فضل صاحب کے لاہور کنسٹریکش کا کام تھا جس میں اللہ کی ذات نے بہت برکت ڈالی تھی ،
ان کی دو ہی بچے تھے بڑا بیٹا عادل چھوٹی بیٹی ارم جس کی کچھ ہفتوں میں رخصتی طے پائی تھی،
جاری
جیسے تبصرے ملیں گئے اتنی جلدی اگلی قسط پوسٹ ہو گی ایک لفظ کمنٹ والوں آپ سے گزارش ہے سہی سے تبصرہ کریں کوئی پیسے لگنے نہیں اگر نہیں ہوا تبصرے لائک سہی تو انتظار کی جائے گا اگلی قسط کا پھر دو دن بعد آئے چاہئے تین دن بعد،،
#نور ملک
0 Comentarios