ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
پہلی سحری ہونے کی وجہ سے علیشا جلدی آٹھ کر فریش ہوتی باہر آتے عادل کے پاس آئی جو ابھی بھی سو رہا تھا،
عادل،،،
عادل اٹھ جائیں سحری کا وقت ہو گیا ہے علیشا عادل کا بازو سے پکڑے ہلاتے بولا جو گہری نید سے آنکھیں کھولتے علیشا کو دیکھا جو جھک کر اس کو اٹھا رہی تھی،
عادل سحری کا وقت گزار جائے گا اٹھے نہ،،،
علیشا نے پھر سے کوشش کی جس ہر عادل ہوش میں آتے اپنے بازو کو جھٹک دیا جس سے علیشا کا ہاتھ دور ہوا،
مواقع ملتا نہیں ہاتھ لگانے بیٹھ جاتی ہو جاو تم یہاں سے جاو میں کر لوں گا سحری اپنے وقت پر عادل آنکھیں مالتے صوفے سے کھڑا ہوتا بولا،
میرا حق بناتا ہے آپ کو ہاتھ لگانے کا اور ویسے بھی آپ اٹھ نہیں رہے تھے اس لے میں نے ہاتھ لگایا محرم ہو بیوی بھی ہوں اندر واشروم میں آپ کے کپڑے نکل دئیے ہیں پہن لی جائے گا علیشا اچھے سے بال حجاب میں کرتی باہر نکل گی،
علیشا کے جاتے ہی عادل دانت پیس کر فریش ہونے چلا گیا،
علیشا اب بنا نقاب کے گھر میں آرام سے چلتی پھرتی تھی ممتاز بیگم نے کیسی بھی غیر مرد کو آنے سے منا کیا تھا اگر آیے بھی تو باہر سے ہی بولیا جائے،
اسلام و علیکم مما،
علیشا کچن میں ۶تے مسکرا کر سلام کیا جس ہر ممتاز بیگم مسکرا کر جواب دیتی علیشا کو پیار دیتے کام کرنے لگی،
علیشا ملازمہ کو ٹیبل لگانے کا کہتی خود املیٹ بنانے لگی تھوڑی دیر میں ناشتہ ٹیبل لگاتے اتنے میں فضل صاحب آ چکے تھے ،
عادل نہیں اٹھا فضل صاحب نے علیشا سے پوچھا،
پاپا عادل اٹھ گئے تھے ابھی آتے ہوں گئے علیشا نے مسکراتے کہا اتنے میں عادل بھی ڈاینگ ٹیبل پر بیٹھے سلام کیا،
سب سحری کرتے فضل صاحب سحری کرتے نماز پڑھنے مسجد کے لے نکلے عادل اپنے کمرے جو علیشا کو عجیب لگا،
علیشا سب کام سمیٹ کر اور کمرے کی طرف بڑھی کمرے آتے عادل کو سیگریٹ پیتے دیکھے کر علیشا پاس جاتے عادل کے منہ سے سیگریٹ نکل کر بھجی،
یہ کیا بدتمیزی ہے علیشا عادل غصے سے کھڑا ہوتا دھاڑا،
سوری میں نے ایسے کیا پر آپ روزے کی نیت کئے حرام چیز کو منہ لگ رہے تھے تو آپ کا روز کیسا ہوتا علیشا نے ڈرتے پر مضبوط بناتے،
تم مجھے مت بتاو کے مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں اپنا کام سے کام رکھو عادل علیشا کا بازو پکڑے سختی سے کہا جس پر علیشا در سے نمی ہوتی آنکھوں سے دیکھا تھا،
علیشا کی آنکھیں نمی سے دیکھے کر دور کرتا واشروم جاتے وضو کرنے چل گیا،
علیشا عادل میں تھوڑا چینج دیکھے کر مسکرائی اس لے بنا کوئی بات کئے اپنی نمی صاف کرتے سہی سے حجاب کرکے اپنے آپ کو کور کرتی نماز کی نیت بندھی جب عادل باہر آتے جائے نماز لے کر نیت کرتا قبیلہ کی طرف کھڑا ہو،
آپ مسجد نہیں جائیں گئے مرد کو حکم ہے نماز مسجد ادا کرئے گھر میں تب جب کوئی بہت بڑا مسئلہ ہو علیشا نے عادل کو دیکھتے کہا،
تم سے پوچھ کر مجھے نہیں جانا عادل کہتے نماز کی نیت کرتا کھڑا ہوا علئشا کھندے اچکا لر عادل کے پیچھے کھڑی ہوتی جائے نماز بچھا کر کھڑی ہوئی،
میرے پیچھے کیوں کھڑی ہو گی ہو جا کر کہی اور نماز ادا کرو عادل چھڑ کر بولا،
بیوی پر فرض ہے اپنے شوہر سے ایک قدم پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرئے نماز پڑھیں وقت نکل کر رہا ہے علیشا کے کہنے ہر عادل کلس کر رہے گیا اس لے سب بات جھٹک کر نماز ادا کرنے لگا،
علیشا تو نماز کے بعد سوئی نہیں قرآن لے کر تلاوت کرتی باقی کا کام سنمبھال کر کمرے میں آئی عادل اب تک سو رہا تھا وقت دیکھا تو نو بج رہے تھے،
افف،
عادل اٹھیں آپ کو دیر ہو گی ہے آفس سے ماموں کو پتا چلا تو ڈانٹے گئے علیشا نے عادل کو ہلاتے کہا جو کوفت سے علیشا کا ہاتھ ہٹا کر وقت دیکھا سامنے وقت دیکھے کر جلدی سے کھڑا ہوتا واشروم کے لے بھاگا،
عادل جلدی تیار ہوتا بال بنا کر جلدی سے اپنا بیگ لے باہر بھاگا تھا،
علیشا کچھ وقت کے لے سونے کا رادہ کیا لیوں کے ابھی کوئی کام نہیں تھا،
علیشا جب اٹھی تو ظہر کی نماز کا وقت ہونے والا تھا علیشا جلدی اٹھ کر فریش یوتے وضو کرکے اذان ہونے کے بعد نماز ادا کی اور جلدی نیچ کی طرف بڑھی،
علیشا جانتی تھی عادل آج سے چار بجے گھر پر ہو گا اس لے ابھی سے افطار لی تھوڑی بہت تیاری کر لی تھی کچھ وقت ملا تو پھر سے قرآن کی تلاوت کرنے کمرے آگی اور خوب کی ،
عادل چار بجے کی جگہ تین بجے آ گیا اپنے کمرے آتے علیشا کی میٹھی آواز سن کر روک سا گیا تھا،
عادل کو اس وقت اگر کوئی اور آواز دیتا بھی تب بھی عادل نہ سنتا اس قدر آواز میں خوبصورتی تھی اوپر سے علیشا اپنے آپ کو بڑے سے ڈوپٹے میں چھپ کر بیٹھی اپنی اللہ کی عبادت میں مشغول تھی ععادل کی موجودگی کا انداز نہ ہوا،
عادل کا دل اپنا ایمان لا رہا تھا اس کی باقیوں جیسی نہیں جو پردے کا ڈرامہ کرکے بعد اپنے حسین کے جل میں بھسائے لیکن عادل اپنی سوچ کو جھٹک کر اپنا بیگ رکھتا فریش ہونے چلا گیا،
علیشا،،
عادل فریش ہوتا جب سامنے پھر شلوار قمیص دیکھے کر چھڑ گیا باہر آتے علیشا کو پکار،
جی،،
علیشا عادل کی آواز سن کر چونکی لیکن جلدی سنمبھال گی ،
تم نے پھر سے شلوار قمیص رکھی میرے دوسرے کپڑے کہاں ہیں عادل غصے سے پوچھا،
آپ نے چار بجے آنا تھا اس لے نکل کر رکھے تاکہ آپ جائیں مسجد نماز ادا کریں لمرلئشا کی بات سن کر عادل ابرو بے بسی کی تصویر بنائے اپنے دوسرے کپڑے نکلتا جب عصر کی اذان کانوں میں پڑی،
الله أكبر,الله أكبر
الله أكبر,الله أكبر
أشهد أن لا اله إلا الله
أشهد أن لا اله إلا الله
أشهد أن محمدا رسول الله
أشهد أن محمدا رسول الله
حي على الصلاة
حي على الصلاة
حي على الفلاح
حي على الفلاح
الله أكبر, الله أكبر
لا إله إلا اللہ
عادل خاموشی سے واپس فریش ہونے چلا گیا وضو کرتے ہی فریش سا نماز ادا کرنے مسجد کا رُخ کیا،
علیشا نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لے نماز کے نیت باندھی،
روزے افطاری کے بعد سب اپنے کاموں کو ختم کر کے اپنے کام پر لگے علیشا اپنے کمرے آئی وامنے عادل لیپ ٹوپ لے اپنے آفس کا کام کر رہا تھا ساتھ ساتھ سر دبا رہا تھا،
آپ کے سر میں درد ہے کیا علیشا پاس آتے پوچھا جس پر عادل نے ٹہر نظروں سے دیکھا تھا،
نہیں،،،
عادل کہتا واپس اپنے کام میں لگتا پر سر کی درد جان نہیں چھوڑ رہی تھی،
اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں سر دبا دوں یا چائے بنا کر دوں علیشا نے پریشانی سے پوچھا،
علیشا مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے جاو یہاں سے سمجھ کیوں نہیں آتی ایک بار کی کہی بات عادل اتنے غصے سے بولنے پر علیشا ڈر کو دو قدم لڑکھڑائی پیچھے بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی،
سوری،
علیشا خاموشی سے اپنا موبائل لے کر کمرے سے باہر نکلتی اوپر ٹیرس کی طرف چلی گی،
امی،،،
علئشا اپنی ماں کو کال کرتے نم آنکھوں کو صاف کرتے پکارا،
علیشا میری بچی کیسی ہے سب ٹھیک ہے نہ وہاں وجہیہ بیگم نے مسکراتے پوچھا،
سب ٹھیک امی علیشا اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے کہا،
میری بچی کے روزے کیسے جا رہیں ہیں وجہیہ بیگم نے پھر پوچھا،
اچھے امی اللہ کا بہت کریم ہے آپ بتائیں ابو اور آپ عمر کرنے کب جا رہیں ہیں علیشا نے مسکراتے پوچھا،
بس بیٹا اگلے ہفتے ہم عمر کے لے نکل رہیں ہیں میری جان وجہیہ بیگم نے مسکراتے بتایا،
اللہ آپ کا عمر قبول کرئے امی ابو علیشا نے دعا کرتے اور ادھر ادھر کی باتیں کی پھر فون رکھ کر آسمان کو دیکھا،
علیشا نہیں دیکھاتی تھی عادل کو اس کا راویہ لتنا برا لگاتا ہے اس لے خاموشی سے ٹیرا پر آ کر اپنے ماں باپ سے بات کر کے امید ملتی اور یہی امید علیشا کی ہمت تھی،
اگلے ہفتے افطاری کے وقت،
آج ساتوں روزہ تھا اور علیشا کے امی ابو کی افطاری ممتاز بیگم نے اپنے گھر رکھی تھی اور یہی سے سجاد احب اور وجہیہ بیگم نے عمر کے لے نکلنا تھا،
تھوڑی دیر میں سب ایرپوٹ کے لے نکلے علیشا اپنے ابو امی کے ساتھ لگی روتی ان کو دیکھا ،
ہم جلدی واپس آ جائیں میری شہزادی بس اللہ کے سامنے جا رہیں ان کے عبادت کرنے ہیں نہ سجاد صاحب نے پیار سے کہا،
ہاں بلکل علیشا مسکراتی آنکھوں سے دیکھتے سجاد صاحب نے پیار سے علئشا کے سر پر پیار دیا،
عادل کی نظریں علیشا پر تھی جو آج بھی پردے کو اہمیت دی تھی جب سامنے ایک لڑکے کی نظریں علیشا پر دیکھے کر موٹھایاں بند کرتے علیشا کے طرف ہوتا کھڑا ہوا ،
انوسمنٹ ہونے کے بعد سجاد صاحب وجہیہ بیگم سب سے مل کر اللہ کی بارگاہ میں حاضری کا سفر پر چل دئیے،
فضل صاحب وجہیہ بیگم نکل کر گھر کے لے نکلے عادل علیشا کا ہاتھ پکڑے ایرپوٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس چھوڑ،
علئشا پہلے حیران ہوئی لیکن اپنی دل کی سپڈ دیکھے کر اللہ اللہ کرتی جلدی گاڑی میں بیٹھی،
عادل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیوں کیسی اور کا علیشا کو دیکھنا اس کو غصہ دلا رہا تھا ،
جاری
0 Comentarios