ناول
خدا عشقم
ازقلم
نور ملک
Don't copy past without my permission
❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌📌 ❌📍❌
(اس ناول کے تمام جملہ حقوق نور ملک رائٹر اور ان کی ناولز آفیشل ٹیم کے پاس محفوظ ہیں ان کی مرضی کے بغیر کاپی پیسٹ کرنے والوں کی سخت کاروائی کی جائے گی پی-ڈی-ایف بنانے کے لے نور ملک رائٹر کی اجازت ضروری ہے)
_________________________
مشکل ہے ہونا روکش رخسار کی جھلک کے
ہم تو بشر ہیں اس جا پر جلتے ہیں ملک کے
مرتا ہے کیوں تو ناحق یاری برادری پر
دنیا کے سارے ناتے ہیں جیتے جی تلک کے
کہتے ہیں گور میں بھی ہیں تین روز بھاری
جاویں کدھر الٰہی مارے ہوئے فلک کے
لاتے نہیں نظر میں غلطانی گہر کو
ہم معتقد ہیں اپنے آنسو ہی کی ڈھلک کے
کل اک مژہ نچوڑے طوفان نوح آیا
فکر فشار میں ہوں میرؔ آج ہر پلک کے
علیشا کیا کر رہی ہو ارم جو اپنا لہنگا دیکھے رہی تھی جو کہی شام کو آیا تھا علیشا کو کوئی کتاب پکڑے دیکھے کر پوچھا،
ایسے شاعری کا مطالعہ علیشا مسکرا کر موڑ کر جواب دیا جو کھڑکی کے ہاس بیٹھی موسم کو دیکھے رہی تھی،
ہم مطلب شاعری کا شوق عروج پر ہے ارم نے ہنستے کہا جس پر علیشا مسکرا دی تھی،
ویسے کھانے کا وقت ہو رہا ہے کیا چلیں نیچے بہت بھوک لگ رہی ہے ارم نے گھڑی دیکھتے پوچھا،
تم جاو ارم میں نے مامی سے بات کی ہے میں یہی پر رہے کر کھا لوں گی علیشا نے شام کو ہوئی ممتاز بیگم سے بات کو سوچتے کہا،
اوکے،
میں چلتی مجھے بہت بھوک لگی یے ارم کھڑی ہوتی دروازہ کھولا سامنے عادل کو دیکھے حیرت سے آنکھیں باہر آتی جب ہی جلدی سے دروازہ بند کیا،
علیشا دروازہ زور سے بند ہونے پر ہڑبڑا کر دیکھا جب باہر سے ارم کی آواز سن کر چونکی،
بھائی آپ یہاں ارم نے کافی اونچی آواز سے پوچھا جس پر اندر بیٹھی علیشا گڑبڑا کر اپنا ڈوپٹہ گلے سے لیتی سر پر ڈالے نقاب اٹھا کر جلدی سے لیا ،
ہاں کیوں نہیں آ سکتا تمہارے کمرے میں عادل ارم کے بال پگڑتا ہاتھ بڑھا کر دروازے کی ناب پر رکھا،
نہیں،،،
کیا مطلب نہیں آ سکتا عادل کو حیرت ہوئی اپنی بہن پر جو اس کا ہاتھ جھٹک گی تھی،
میرا مطلب ہے کھانے پر موم ڈیڈ انتظار کر رہیں تو نیچے چلتے ہیں ارم نے بات بدلی،
وہ بھی ہو جائت گا پر مجھے اپنے بہن کی تیاری دیکھنی ہے کیسی ہوئی شادی کا لہنگا تو پسند آ گیا ہو گا عادل ارم کو دروازے سے ہٹا کر دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا،
او شیٹ،،،،
ارم نے سر پیٹا لیکن اب کیا فائدہ اسکا بھائی اندر جا چکا تھا ارم بھی پیچھے ہوئی،
عادل کے آنے سے پہلے علیشا واڈرب جاتی پر تب تک عادل اندر داخل ہو چکا تھا،
عادل اندر آتے سامنے کیسی لڑکی کو نقاب میں دیکھے کر موڑ کر حیران سا ارم کو دیکھتے ابرو اچکائی،
وجہیہ پھپھو کی بیٹی علیشا ،،،،
ارم نے مسکراتے کہا جب عادل نے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا پیچھے ارم نے ہاتھ جوڑتے معافی مانگی عادل کی نظر علیشا پر تھی جو اپنے چہرے کے ساتھ بڑے طریقے سے ڈریسنگ کئے کھڑی تھی ،
علیشا میں انجانی سی کشش محسوس ہو رہی تھی عادل کو جو پہلے کیسی لڑکی کو دیکھے کر نہیں ہوئی،
اگر ہماری پھپھو کی بیٹی ہے تو اس نقاب کی کیا ضرورت ہم سب تو کزن ہیں نہ اتار دو عادل فیرنک ہوتے ارم کے صوفے پر جا کر بیٹھا پر نظر بار بار پتا نہیں کیوں علئشا پر جا رہی تھی،
مسٹر عادل کزن ہوں گئے پر میں اپنا نقاب آپ کے حکم پر کیوں اتارو ہیں کون ہیں میرے لے بس ایک غیر محرم بس اس سے زیادہ کچھ نہیں اپنا حکم اور مشورہ اپنے پاس رکھیں علیشا غصے سے کہتی ارم کو دیکھتے کمرے سے باہر نکل گی،
ہاو روڈ میں نے ایسا کیا کہے دیا عادل شوکڈ سے بولا،
بھائی علیشا کو بلکل پسند نہیں ہے کوئی اس کو غیر محرم دیکھے ارم نے پاس بیٹھتے کہا،
میں غیر محرم کیسے ہوا اس کے ماموں کا بیٹا پلس پھپھو کا بھتجا ہوا نہ تو پھر یہ سب عادل کو علیشا کی بات بری طرح کھٹکی تھی،
بھائی پلیز آپ علیشا کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں دوسرا دور رہیں نہیں تو علیشا ایسے ہی بولے گی ارم نے اپنے بھائی کو نصیت کی،
مجھے بھی کوئی شوق نہیں عادل منہ بناتے بولا لیکن پتا نہیں دل نے نہ میں سر ہلا دیا کچھ تھا جو علیشا کی طرف کھنچ رہا تھا،
ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا عادل نے اچھے سے نوٹ کیا تھا وہ جہاں ہوتا علیشا کہی نظر نہیں آتی لیکن جہاں اس کے باپ ہوتا وہاں تو نقاب کے بغیر بھی ہنستی مسکراتی رہتی پر اب تک اس نے علیشا کی شکل نہیں دیکھی تھی،
آج ارم کی مہندی کی رسم تھی پورے گھر کو سجایا جا رہا تھا عادل آدمیوں سے کام لیتا جب سامنے سیڑھیوں سے علیشا کو اترتا دیکھے جو سہی سے نقاب کئے نیچے آرہی تھی،
علیشا اپنے پر نظریں محسوس کرتے گھبرا کر آنکھیں آٹھا کر دیکھا لیکن کسی کو نہ دیکھے کر نیچے آتے ممتاز بیگم کے پاس کچن میں گی جو رات کی تیاری میں ملازمہ کو ہدایت دئیے رہی تھی،
ہاں علیشا بیٹا کوئی کام تھا ممتاز بیگم ملازمہ کو کام کرنے کا کہتی علیشا کی طرف موڑ کر پوچھا،
وہ مامی ارم کو تیار کرنے والی بیوٹیش خود آئے گی یا ہم دونوں کو وہاں جانا ہو گا علیشا نے ہاتھ موڑتے پوچھا،
مجھے پتا تھا تم اس بات کو لے کر پریشان ہو گی اس لے بیوٹیش کو گھر بولا لیا ہے تم دونوں بس تیار ہو جانا وقت پر ممتاز بیگم نے مسکراتے علیشا کا گال تھپتھپا،
عادل اپنے موبائل پر لگا کچن کی طرف گیا جہاں علیشا اس کی ماں سے بات کرنے میں مصروف تھی،
کوئی کام عادل تم یہاں ممتاز بیگم اپنے بیٹے کو کچن میں دیکھے کر پوچھا،
میں چلتی ہوں مامی علیشا کہے کر وہاں سے نکل گی تھی لیکن عادل کی چور نظروں سے علیشا کا پیچھے تک سفر کیا،
عادل،،،
ممتاز بیگم عادل کو خاموش دیکهے کر پھر پوچھا جو پتا نہیں کہاں کهویا تها،
وہ باہر کام پر نظر ڈالیں کوئی اور تو تبدیلی تو نہیں کرنی عادل نے موبائل جیب میں رکھتے کہا،
ٹھیک ہے چلو ممتاز بیگم کہتے عادل کے ساتھ باہر کے انتظام دیکھنے چلی گیں،
شام مغرب کے بعد ہر طرف فضل ہاوس میں رونق لگ چکی تھی مہمانوں آنا شروع ہو چکے تھے،
عادل اپنے باپ کے ساتھ کھڑا ہو کر سب کو مسکرا کر خوش امید کر رہا تھا،
سب کے آنے پر فضل صاحب عادل کو کام بتا کر سجاد صاحب کے ساتھ ملتے آگئے بڑھ گئے،
عادل کے سب کزن لڑکے لڑکیاں اپنی محفل لگائے بیٹھے تھے عادل ابھی اپنا کام کرنے میں لگا تھا اس لے سب سے مل کر آنے کا کہا،
ممتاز بیگم نے لڑکیوں کو کہے کر ارم کو لانے کا کہا جو تھوڑی دیر میں لائے آئیں،
عادل تو اپنی بہن کے ساتھ دائیں طرف ساتھ چلتی علیشا پر گی جو آج بھی نقاب میں تھی،
عادل کو علیشا میں کچھ الگ دیکھا سب لڑکیاں اتنا میک آپ ،فیشن سے بھر پورا تنگ کپڑے پہنے ہوئے تھی وہی دوسری طرف علیشا پاوں تک آتے کھولے پیلے رنگ کے فراک پاوں میں کھوسہ حجاب اچھے سے کئے بال کا ایک دانہ باہر نہ تھا نقاب کو اچھے سے چہرے پر کے سب سے مختلف ہی لگی،
ویسے اگر آج تم اپنا یہ سو کولڈ نقاب نہ کرتی تو کچھ چلا نہیں جاتا اپنی کزن کی شادی خراب کرنے ہر تولی ہو ارم کو بیٹھتے ہی بہت سی تصویریں بنائی جب ہی آیت نے علیشا کو دیکھتے طنز کیا،
تمہاری نظر میں نقاب کی کوئی اہمیت نہیں پر میری نظر میں ہے اس لے زبان سنمبھال کر بولنا علیشا غصئ سے کہتی اپنے باپ کی طرف بڑھی جو مسکرا کر اس کو ہی دیکھے رہے تھے،
دیکھتی ہوں تمہارے نقاب کو اچھے سے آیت دانت پیس کر بڑبڑائی،
اسلام و علیکم ابو،،
علیشا اپنے باپ کے گلے لگے بولی جو اپبی بیٹی کے سر پر بوس دیتے اس کی ماں کے پاس جانے کا کہا،
ارے وجہیہ یہ تیری بیٹی ہے ،
علیشا اپنی ماں کے پاس آتے بیٹھی جب ایک خاندان کی عورت نخوت سے بولی،
ہاں ماشااللہ سے وجہیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے علیشا کا ہاتھ پکڑے کہا،
تو پھر یہ نقاب کیوں سب لڑکیوں کو دیکھو کتنا تیار ہیں اور یہ ایسے کوئی مسئلہ ہے عورت طنز مسکراتے پوچھا،
نہیں علیشا کو حجاب کرنا پسند ہے اس لے وہ روز کرتی ہے غیر محرم کے سامنے پردہ کرتی ہے ممتاز بیگم نے وجہیہ بیگم کو خاموش دیکھے کر جواب دیا،
پکا نہ یہ پھر یہ اپنی عزت لوٹا چکی ہے اس لے اب شرفت کا چول پہنے کے لے نقاب کر رہی ہے عورت کہے کہنے پر پاس بیٹھی سب ایک عجیب انداز میں ہنسی جس پر وجہیہ بیگم چہرے کا رنگ پل میں زرد ہوا وہی علیشا غصے سے سرخ آنکھیں لے دیکھا ممتاز بیگم تو شوکڈ ہی رہے گی تھیں،
نقاب کوئی شرفت کا چول نہیں ہے جو پہنا جائے یہ ہمارا دین اسلام کا ایک خوبصورت تفحہ ہے جو اللہ نے ہمارے پیاری نبی ﷺ کو دیا تھا اور کہا تھا کہو اپنی بیویوں ،بیٹیوں کو کے پردے میں رہیں اس میں عزت ہے پر آپ جیسوں کو پردے کا مطلب سمجھ کہاں علیشا مسکراتی تن کر بولی،
رہی بات عزت کی تو شکر اللہ کا جس نے مجھے پردے میں رکھا ہے میری عزت کی حفاظت کی ہے رہی یہاں ہر لڑکی تو اپنی نمائش کر کے کیا مل رہا ہے ہوس بھرے لوگوں کی آنکھوں کی بھوک بھڑا رہی ہیں علیشا کہتی وہاں سے کھڑی ہوتی سٹیج کی طرف چل دی،
کتنی بدتمیز ہے تمہاری بیٹی عورت نے غصے سے کہا،
وجہیہ بیگم نے پہلو بدلا،
سچائی کڑوی ہوتی ہے علیشا نے تو آئینہ دیکھا اب اس کو نہیں پتا تھا سب کو برا لگ جائے گا ممتاز بیگم کہے کر دوسرے لوگوں سے ملنے کے لے بڑھی،
سب مہندی کی رسم کے بات کھانا کھانے کے بعد ہر کوئی اپنی محفل لگائے بیٹھا تھا ،
سب کنزنز مل کر ہنسی مزاق کر رہے تھے جب آیت کی نظر سامنے سے آتی علیشا پر گی جو ان سب میں تب بیٹھی تھی جب کوئی غیر محرم مرد نہ ہوتا آیت کچھ سوچتی عادل کی طرف موڑی،
عادل تمہیں چیلنچ کرنے کا بہت شوق ہے نہ آیت نے مسکراتے پوچھا،
ہاں بہت عادل مسکراتے سر کو خم دیا،
تو ٹھیک ہے عادل میں تمہیں چیلنج کرتی ہوں تم اپنے پھپھو کی بیٹی کا نقاب نہیں اتروا سکو گئے وہ دیکھو آرہی ہے آیت نے مسکراتے کہا،
مجھے چیلنج پورا ہونے پر کیا ملے گا عادل سامنے علیشا کو دیکھتے مسکرا کر پوچھا،
پہلے پورا تو کرو پھر جو تم کہو گے وہ ملے گا آیت جانتی تھی علیشا نے کبھی اپنے نقاب کو چھونے کا حق ان لڑکیوں کو بھی نہیں دیا تھا،
آیت یہ کیا فضول مزاق ہے تم اچھے سے جانتی ہو علیشا اپنے نقاب کو لے کر کتنا سیرس ہے عاشر ان کے چاچا کا بیٹا علیشا کا سوچتے بھڑک کر آیت کو بولا،
او پلیز اتنی یہ سات پرودوں کی ملکہ اگر ہوتی تو یہاں نہ ہوتی نقاب کرنے کا اتنا ڈرامہ نا کرتی یہ بھی اس کی ایک ادا ہے غیر مردوں کو اپنی طرف موڑنے کی آیت عاشر کی بات پر چیڑ کر بولی،
ٹھیک ہے میں نے ایک سینکڈ میں اس کا نقاب اتار دوں گا اس کے بعد میں تم سے پارٹی لوں گا عادل اپنی شرط رکھتا بولا،
سہی،،
آیت مسکرا دی تھی جب عادل بالوں میں ہاتھ پھرتے اپنی بہن کی طرف بڑھا جہاں اس کے ساتھ ہی علیشا کھڑی بات کر رہی تھی،
عادل نے علیشا کو خود بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ایک کشش تھی جو عادل کو علیشا کی طرف متوجہ کرتی جو مرد کے پاس آنے سے پہلے غائب ہو جاتی تھی،
علیشا اپنے پر نظروں کی تپیش محسوس کرتے بے چینی سے سر اٹھا کر دیکھا اپنے ماموں کے بیٹے کو اس طرف آتا دیکھے کر زوبیا آرم سے آنے کر کہتی اٹھا کر جاتی لیکن عادل نے علیشا کا بیچ میں راستہ روکا ،
ارم اپنی بھائی کی حرکت پر حیران ہوئی دور کھڑی ممتاز بیگم بھی عادل کی حرکت پر سب کو مسکرا کر آنے کا کہتی سیٹج لی طرف بڑی،
یہ کیا بدتمیزی ہے راستہ چھوڑیں علیشا نظریں جھکے غوارئی،
کیا کزن ہمارے آتے چل دی کبھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر بھی بات کیا کرو ہم بھی تمہارے اپنے ہیں عادل نے دانت دیکھاتے کہا،
بھائی یہ کیا مزاق ہے راستہ چھوڑیں پلیز علیشا کا ارم گھبرا کر کھڑی ہوتی بولی اتنے میں ممتاز بیگم بھی سٹیج پر آ چکی تھی،
عادل ہٹو علیشا کے سامنے سے کوئی تماشا مت بناو ممتاز بیگم مسکراتے لیکن سختی سے کہا،
کیا ہو گیا ہے مما ایسا اگر میں نے علیشا کو روک لیا کزن لگتی ہے میری راشتے میں عادل علیشا کو دیکھا جس کی پل بھر کے لے نظریں اٹھی تھی عادل تو پلٹنا بھول گیا تھا بہت خوبصورتی تھی ان آنکھوں میں تو چہرہ کا کیا حسن ہو گا عادل لا دل گواہی دیتے بولا،
علیشا عادل کی ڈھٹائی پر کھولتی سیڈ سے ہو کر جاتی جب ہی عادل نے جلدی سے علیشا کا پیچھے سے نقاب پکڑ کر ہلکا سا کھنچا لیکن عادل کے کھچنے پر علیشا کا نقاب کھول گیا تھا،
عادل کی حرکت پر سب کو ہی سن کر گیا تھا ممتاز بیگم کا دل کیا اپنے بیٹے کو سب کے سامنے دو لگا دئیں،
علیشا تو بھری محفل میں اپنے آپ کو بے ابرو ہوتے محسوس کر کے اس ذلیت پر چہرہ اٹھا کر دیکھا سب کی نظریں اس پر دیکھے کر علیشا اس تذیل پر آنکھوں میں نمی آتے جلدی واپس نقاب کانپتے ہاتھوں سے بند کیا تھا،
چٹاخ ،
علیشا غصے سے موڑتی بھری محفل میں کھنچ کر عادل کو تھپڑ مارا جس پر عادل کے ساتھ سب ہوش میں آئے تھے،
انتہا کے بدتمیز ہیں آپ مسٹر عادل بھری محفل میں ذلیل کرنا کوئی آپ سے سیکھے علیشا آنکھوں میں نمی لے واپس موڑتے بھاگتی ہوئی وہاں سے نکل گی،
پیچے عادل کھڑا غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے جاتی ہوئی علیشا کا دیکھے رہا تھا،
علئشا کو باہر بھاگتے دیکھے کر سجاد صاحب وجہیہ بیگم کو لے نکل گئے تھے فضل صاحب آگ بگولہ ہوئے عادل کو دیکھا جو ہر چیز کو ٹھوکر مارتے باہر نکل گیا پیچھے سب کزنز نے آیت کو گھورا جو کھندے اچکا گی،
جاری
0 Comentarios